اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، اے این این) دہشت گردوں کو سزا دینے کی فوجی عدالتوں کی مدت آج ختم ہو رہی ہے ، کل سے دہشت گردوں کا ٹرائل نہیں کر سکیں گی۔ وزیر داخلہ چودھری نثارنے کہا ہے کہ ان کی مدت میں توسیع کی ابھی تک کوئی تجویز نہیں آئی اور نہ ہی زیر غور ہے۔ اب ایسے مقدمے فوجی عدالتوں کے بجائے انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چلیں گے۔ ذرائع وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ چندروزقبل بھیجے گئے 40مقدمات پر کارروائی نہیں ہوسکی تھی،فوجی عدالتوں میں 120 مقدمات زیرسماعت ہیں،کل سے160مقدمات انسداد دہشتگردی عدالتوں کے سپرد ہو جائینگے۔ فوجی عدالتوں کے مستقبل پر مشیر قانون بیرسٹرظفراللہ لاعلم پائے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ وزارت قانون کا نہیں وزارت داخلہ کا ہے جبکہ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ تجویز ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالتیں جیل کے اندرٹرائل کریں، فوجی عدالتوں کے مقدمات اب انسداد دہشتگردی عدالتوں میں جائیں گے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ فوجی عدالتیں 2سال کیلئے قائم کی گئیں تھیں،ان کی مدت میں توسیع کی ابھی تک کوئی تجویز نہیں آئی اور نہ ہی زیر غور ہے،اب ایسے مقدمے فوجی عدالتوں کے بجائے انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چلیں گے۔ واضح رہے اے پی ایس پشاور سانحے کے بعد تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں ،ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے بعد متعدد دہشتگردوں کو پھانسی کی سزادی گئی ہے۔ پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے نیا قانون متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے جس کے تحت ججوں اور گواہواں کی شناخت مخفی رکھی جائے گی۔ مشیر برائے قانونی امور نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے ساتھ نہیں دیتیں تو اگلے چند دنوں میں مسودہ پیش کر دیا جائے گا۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا اگر فوجی عدالتیں قائم نہیں رہتیں جو کچھ مشکل ہوتا لگ رہا ہے تو ہم دوسرے راستے کو اختیار کریں گے جس میں ہماری عام عدالتیں ہی کام کریں گیں مگر گواہوں، پراسیکیوٹر، پولیس اور ججز کو زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ تاکہ انتہاپسندی سے متعلق مقدمات کی سماعت نہ رکے۔ انہوں نے بتایا کہ ’فوجی عدالتیں ختم ہونے کے بعد وہاں جاری تمام مقدمات سول عدالتوں میں منتقل ہو جائیں گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نئی قانون سازی کے لیے ہماری برطانوی حکومت کے ماہرین سے بات چیت ہوئی ہے کہ جج کی شناخت کیسے چھپانی ہے۔ وہ سماعت کرے مگر پتا نہ ہو کہ جج کون ہے۔ گواہوں کو کیسے چھپانا ہے، ان کی حفاظت کیسے کرنی ہے؟ ویڈیو کے ذریعے سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ کیا کوئی ڈھال نما پردہ لگایا جا سکتا ہے گواہ اور ملزم کے درمیان؟ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تمام جدید تکنیکیں زیرِغور ہیں۔ یقیناً پاکستان میں مقدمات کی منصفانہ سماعت کا نظام موجود ہے تو ہم ایسی چیزیں تو نہیں کر سکتے جو بالکل آئین کے خلاف ہوں۔ نئی قانون سازی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس اب ختم ہو چکا ہے مگر اس کی گواہان کے بارے میں کچھ غیر متنازع دفعات اچھی تھیں جنھیں ہم بہتر بنا رہے ہیں۔ دہشت گردی کی تعریف میں مسائل ہیں، بعض اوقات اس کی تعریف بہت وسیع ہو جاتی ہے اور وزیرِاعظم کا کہنا ہے کہ اسے جامع بنایا جائے۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ نہیں کہ کسی پر چھوٹی موٹی بات پر دہشت گردی کا الزام لگ جائے۔ ہم اسے تھوڑا انسانیت کے دائرے میں لانا چاہتے ہیں کہ جو حقیقی دہشت گرد ہیں اور واقعی معاشرے کے لیے خطرہ ہیں انھیں دہشت گرد کہیں۔‘پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد انتہا پسندوں سے منسلک مقدمات سےنمٹنے کے لیے پارلیمان نے دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی منظوری دی تھی۔شہریوں کے خقوق کی پامالی کی روک تھام کے لیے پاکستان کے آئین میں فوجی عدالتوں کے قیام کی گنجائش نہیں تھی اس لیے پارلیمان نے 21ویں ترامیم کی جس کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔ اس موقع پر سینیٹ کے چیرمین رضا ربانی نے فوجی عدالتوں کے قیام پر افسوس کا اظہار کیا تھا لیکن مجبوری قرار دیتے ہوئے انہیں وقت کی ضرورت قرار دیا۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر ظفر اللہ نے بھی تسلیم کیا کہ فوجی عدالتیں بنانا اچھا اقدام نہیں ہے۔ جمہوری معاشرہ ہے، ہماری سیاسی جماعت ہے، ہم الیکشن لڑ کر آئے ہیں ہم تو فوجی عدالتوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دو سال پہلے ہونے والے اس حکومتی فیصلے کا جواز بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’انتہا پسندی کے مقدمات میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جج، وکیل اور گواہاں کو جان کا خوف ہوتا۔ جتنے اہم مقدمے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ کوئی سامنے نہیں آتا۔ اسی لیے ایسے مقدمات سے نمنٹے کے لیے فوجی عدالتیں بنائی گئیں۔