اسلام آباد (صباح نیوز) وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو دہشت گردی کے خلاف 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا سربراہ بنانے کی تصدیق کردی۔ نجی ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ اس حوالے سے معاہدے کو چند روز قبل حتمی شکل دی گئی۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس معاہدے کے حوالے سے زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ فیصلہ موجودہ حکومت کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا اور اسے پہلے پاکستان میں حتمی شکل دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے کسی اسائنمنٹ یا تعیناتی کے لیے حکومت اور جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی باقاعدہ کلیئرنس کی ضرورت ہوتی ہے اور سابق آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے معاہدے کو حتمی شکل دیئے جانے سے قبل قانونی عمل کی پیروی کی گئی،ایک سوال کے جواب میں وزیر دفاع نے کہا ہے کہ جنہیں آج دہشت گرد کہا جا رہا ہے 80کی دہائی میں ان کی وائٹ ہاﺅس تک رسائی تھی اب جس کا ہم پر الزام لگ رہا ہے اس وقت یہ نیک کام تھا جو ہم نے کیا انہوں نے کہا کہ اس وقت اس نیک کام کی وضاحت مختلف تھی جنہیں آج دہشت گرد کہا جا رہا ہے اس وقت ان کی وائٹ ہاﺅس تک رسائی تھی آج دہشت گردی ایک بزنس بن گیا ہے انہیں کہیں سے تو فنڈ آرہے ہیں کسی نہ کسی طریقے سے انہیں فنڈنگ تو ہو رہی ہے وزیر دفاع نے کہا کہ اب بھی انکا مکمل خاتمہ نہیں ہوا تاہم ضرب عضب جاری ہے جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ تو ہم پر الزام لگاتا رہتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان میں کامیابیاں ملی ہیں مذید کامیابیوں کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں دہشتگردی کا ورثہ ہمیں ماضی سے ملا ہے اس کو صاف کرتے کرتے کچھ وقت لگے گا دہشت گردی ہماری اندرونی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے اگر پنجاب حکومت ضروری سمجھتی ہے تو پنجاب میں بھی رینجرز آپریشن ضرور ہونا چاہیے پاناما لیکس عوامی مسئلہ نہیں جو الزام لگا رہے ہیں ان کی اپنی ساکھ کیا ہے ان کے الزامات سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہو گا الزام لگاتے ہیں مگر ثبوت پیش نہیں کرتے اور کہتے ہیں الزام لگانا ہمارا کام ہے ثبوت دینا نہیں میں 2012سے عمران خان سے پوچھ رہا ہوں سات ملین چندہ اکٹھا کر کے باہر لے گئے واپس کیوں نہیں لا رہے مگر وہ اسکا جواب ہی نہیں دے رہے اسکے علاوہ جہاں جہاں بھی ضرورت ہے رینجرز آپریشن ہونا چاہیے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی سربراہی میں الائنس میں شامل ممالک کی تعداد 39ہو گئی جو ایک اچھی بات ہے پوری اسلامی امہ کو اس میں شامل ہونا چاہیے پوری امہ کو برما ، فلسطین اور کشمیر تک کے مسائل پر متحد ہونا چاہیے انہوں نے کہا کہ 2018میں پاناما کا مسئلہ نہیں ہو گا اس کا عوام کی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں اس وقت بجلی سڑکیں اور دیگر عوامی مسائل مسئلہ ہوں گے۔
