تازہ تر ین

3 کروڑ چلتی پھرتی نعشیں …. 80 لاکھ لیٹرز زہر کی فروخت کا انکشاف

لاہور (سید مستحسن ندیم) صوبہ بھر میں بوتل واٹر سپلائی کرنے والی 71 کمپنیاں ”تندرستی اور صحت“ کے نام پر زہریلا اور مضرصحت پانی فروخت کرنے لگی اور موت مانٹنے لگیں۔ حکومت محکمہ صحت اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ذمہ دار حکام نے ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کر لی 3 ٹیسٹنگ لیبارٹریوں نے ان سپلائی ہونے والے بوتل پانی کو انسانی صحت کا دشمن قرار دے دیا۔ پانی سپلائی کرنے والی 5 فیکٹریوں کو 15 فروری 2010ءکو سیل کر دیا۔ مگر فیکٹری مالکان نے محکمانہ حکام سے ساز باز کر کے پانی کی فروخت جاری رکھی۔ ان لیبارٹریوں ”پی سی ایس آئی آر“ کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز اور پاکستان سٹینڈرڈ آف کوالٹی اسلام آباد شامل ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے حکم پر تینوں لیبارٹریوں نے اپنی اپنی رپورٹ میں ان بوتل پانی فروخت کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔ مگر پھر بھی ایکشن نہ لیا گیا۔ جبکہ دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ بھی وطن پارٹی کی پٹیشن پر فیصلہ نہ کر سکی۔ جس پر وطن پارٹی نے ”صاف پانی‘ اور ’منرل واٹر‘ کے نام پر بوتل پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کے لئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 184 کے تحت دائر آئینی پٹیشن میں فیڈریشن آف پاکستان چیف سیکرٹری پنجاب ایم ڈی واسا، وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی وزارت صحت اور صوبہ بھر کے ڈی سی او کو فریق بنایا گیا۔ خبریں کے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق بوتل پانی کے استعمال سے 2 ملین لوگ ہیپاٹائٹس (سی) میں مبتلا ہوئے جبکہ 15 ملین لوگوں کو ہیپاٹائٹس بی کا مرض لاحق ہوا جبکہ 14 ملین لوگ اس بوتل پانی کے استعمال سے ڈائریا، ہیضہ، ذیابیطس، جگر اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ خبریں کے مطابق پانی فروحت کرنے والی فیکٹریاں پاکستان سٹینڈرڈ آف کوالٹی کے معیار کے برعکس ٹیوب ویلوں کے ذریعے بوتلوں میں پانی بھرتی ہیں اور پانی کو محفوظ رکھنے کے لئے ان میں آرسینک، سوڈیم اور پوٹاشیم کا مقدار سے زائد استعمال کرتی ہیں۔ جو انسانی صحت کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ خبریں کے مطابق 7 سالوں کے دوران بوتل پانی کے استعمال کی وجہ سے بوڑھے اور بچے بڑی تعداد میں بیمار ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر تینوں لیبارٹریوں نے ان 71 کمپنیوں کے ’پانی‘ کے نمونے لے کر تصدیق کئے کوئی بھی کمپنی ان لیبارٹریوں کے معیار کے مطابق پورا نہ اتری۔ وطن پارٹی کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر پٹیشن میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ آرٹیکل 9,8,4,3 کے تحت عدالت اپنی ذمہ داری پوری کرے اور حکومت پنجاب کو حکم دے کہ ان بوتل پانی سپلائی کرنے والی کمپنیوں پر پابندی لگائی اور ایکشن لیا جائے۔لاہور (خصوصی رپورٹ) صو بائی دارالحکومت میں 80فیصد سے زائد شہری کیمیکل ملا زہریلا دودھ پینے یا بچوں کوپلانے پر مجبور ہیں۔ 50لاکھ لٹر سے زائد پاﺅڈر کیمیکل ملا دودھ روزانہ 40سے 200کلو میٹر کے فاصلے سے ٹینکرز میں لاد کر شہر میں لایا جاتا ہے اور یہ پاﺅڈر ملک ہر طرح کے کیمیکل ٹیسٹ کے بعد مضر صحت اور غیر معیاری ثابت ہو چکا ہے۔ شہر میں سجی ہزاروں دودھ کی دکانوں میں شیر فروش موت فروخت کر رہے ہیں ۔ فوڈاتھارٹیز، مارکیٹ کمیٹیوں، پرائس کنٹرول مجسٹریٹس اور پیور فوڈ ایکٹ ادارہ بھی شہریوں کو خالص اور معیاری دودھ کی فراہمی میں ناکام ہو کر رہ گئے ہیں۔ عدالت عظمی کے احکامات کے باوجو د بھی ذمہ داروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی محض ہزاروں لٹر دودھ قبضے میں لیے جانے اور ضائع کر نے پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق صو بائی دارالحکومت میں گھروں میں استعمال کے لئے اور مٹھائیاں وغیرہ تیا ر کرنے کے لئے 80لاکھ لٹر دودھ روزانہ لایا جاتا ہے جس میں کیمیکل، سنگھاڑے کا پا ڈر ،فارمالین اور دیگر کیمیکلز استعمال کیا جاتا ہے۔ دددھ کی کوالٹی یوں دکھائی دیتی ہے کہ وہ پتلا نہیں بلکہ جھاگ کے ساتھ گاڑھا ہوتا ہے۔ کیمیکل ملے دددھ کی تیاری لاہور کے مضافاتی علاقوں میں قائم فیکٹریوں میں کی جاتی ہے جسے ہر روز مارکیٹ میں بکنے کے لئے لایا جاتا ہے۔اس کیمیکل ملے دودھ کی کوالٹی ہوتی ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی خراب نہیں ہوتا اور اس کی رنگت میں بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہ دودھ 50روپے میں بھی فروخت کیا جاتا ہے۔ سستا ہونے کے باعث لوگ اسے وافر مقدار میں خرید کر لے جاتے ہیں جس کے باعث وہ دن بہ دن مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سخت اقدامات اٹھائے تاکہ صحت مند معاشرے کا وجود ممکن ہو سکے ۔ممتازغذائی ماہر ڈاکٹر سروش نے گفتگو کر تے ہوئے کہا ہے کہ ملاوٹ شدہ خوراک اور کیمیکل ملا دودھ کا استعمال انسانی زندگی کے لئے زہرقاتل ہے۔انھوں نے کہا کہ خالص دودھ بھی زہر کی مانند ہے کیونکہ گوالے دودھ کی مقدار زیادہ لینے کے لیے آکسی ٹوسن ٹیکے کا استعمال کرتے ہیں ۔یہ انجکشن بھینس کی نسوں میں شامل ہو کر ہڈیوں میں موجود دودھ کے ریشوں کو بھی باہر نکا ل دیتا ہے اور یہ دودھ خالص ہونے کے باوجود زہر آلود ہو جاتا ہے جس کے استعمال سے خصو صا چھوٹے بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیمیکل ملے دودھ یا اس سے تیار کی جانے والی اشیا کا استعمال انسان کے نظام انہضام کو بری طرح نقصان پہنچاتا ہے جس سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر جلد موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سروش نے کہا کہ حکو مت وقت کو چاہئے کہ انسانی صحت کی بقا کے لئے دودھ سمیت بنیادی کھانے پینے کی اشیا کے معیار میں سو فیصد تک بہتری لائی جائے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain