لاہور ( ضیا شاہد سے)نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکی میڈیا اور معروف اخبارات اس ضمن میں اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک آنا تقریباً یقینی ہے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ کی اپنی جماعت کے بہت سے اہم رہنما ٹرمپ سے ناراض ہیں اور تقریباً 2 تہائی سے زیادہ ارکان کانگریس ٹرمپ کی بدزبانی بے معنی گفتگو سے پریشان ہیں۔ امریکی قانون کے ماہرین نوامن الین، رچرڈ پینٹر، لانس کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ امریکی آئین کا آرٹیکل 2، سیکشن 4، مواخذے کی کلاز سے متعلقہ ہے۔امریکی ماہرین کے مطابق ممکنہ طور امریکی صدر کے جنسی سکینڈل، اپنے کاروبار سے مکمل علیحدگی کا نہ ہونا ٹیکس چوری کرنا، جھوٹ بولنا، ملک کو کسی اقدام سے نقصان پہنچانا جیسے اقدامات کے ثابت ہونے پر صدر کا مواخذہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے بارے میں لوگ اتنا یقین رکھتے ہیں کہ اس پر شرطیں لگائی جا رہی ہیں۔اور ماہرین قانون دعویٰ کر رہے ہیں کہ 6 ماہ کے اندر اندر ڈونلڈ ٹرمپ کو مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف امریکی آئین میں بھی گنجائش ہے کہ کچھ وجوہات کی بناءپر صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک لائی جا سکتی ہے۔ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ وہ تشدد پسند ہیں، ازحود قانون کی پکڑ میں آتا ہے۔ ان پر جنسی سکینڈل کے لگے الزامات میں سے کوئی ایک الزام بھی ثابت ہو جائے تو مواخذے کی تحریک آ سکتی ہے۔ کسی امریکی صدر کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، ٹرمپ نے اپنا کاروبار چھوڑنے کے بجائے بیٹے کے سپرد کر دیا۔ امریکی عوام کہتی ہے کہ روس نے انتخابات میں مداخلت کی لیکن ٹرمپ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر امریکی انتخابات کو روس کی طرف سے ہیک کرنے کے حوالے سے ثبوت اور تصاویر سامنے آ گئیں تو امریکی صدر کا بچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔