تازہ تر ین

پانامہ کیس, قطری شہزادے کا ایک اور خط آگیا

اسلام آباد (این این آئی، اے این این) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز نے اضافی دستاویزات پر مشتمل جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لاجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت عظمیٰ میں اپنے موکلین کی جانب سے جواب جمع کرایا۔وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کی پروفائل شامل ہے جس میں قطری شہزادے کی کاروباری تفصیلات بھی فراہم کی گئیں جن کے مطابق شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔قطری شہزادے کا 22 دسمبر 2016 کو لکھا گیا ایک اور خط بھی دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے، جو پہلے خط کے بعد اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لکھا گیا۔خط کے مطابق قطر میں سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی جو اس وقت معمول کی بات تھی ۔خط میں کہا گیا کہ 2005 کے اختتام پر کارروبار کے ضمن میںمیاں محمد شریف کو 80 لاکھ ڈالر واجب الادا تھے، جنھیں ان کی خواہش پر حسین نواز کے نمائندے کو نیلسن اور نیسکول کے شیئرز کی صورت میں ادا کیا گیا۔دوسری جانب طارق شفیع کا بیان حلفی1980 میں دبئی فیکٹری کی فروخت اور اس کی متعلقہ دستاویزات، عزیزیہ اسٹیل مل کی خرید و فروخت سے متعلق دستاویزات کی کاپی بھی دستاویزات کا حصہ ہیں۔ سپریم کورٹ میں پاناما پیپرزسے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نوازاور حسین نواز لندن فلیٹس سے متعلق منی ٹریل جمع کرا دی ،دبئی فیکٹری کی 1980 میں فروخت، سعودی عرب میں عزیزیہ اسٹیل مل کی خریدو فروخت، میاں شریف کی التھانی فیملی کے ساتھ سرمایہ کاری کی سیٹلمنٹ، حدیبیہ پیپر ملزکی آڈیٹر رپورٹس، التوفیق ٹرسٹ کا قرضہ، نیسکول، نیلسن کمپنیوں کا کنٹرول سنبھالنے کی دستاویزات، ٹسٹی سروسز کارپوریشن کی خدمات حاصل کرنے کے خط کی کاپی تاریخوں سمیت جمع کرا ئی گئی، قطری شہزادے کا دوسرا خط اورطارق شفیع کا بیان حلفی بھی منی ٹریل تفصیلات کا حصہ ہےں ۔جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پاناما پیپرزسے متعلق درخواستوں کی17 ویں سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہاکہ آج مریم نواز کے زیر کفالت نہ ہونے پر دلائل دوں گا جبکہ مریم نواز نے اپنے انٹرویو میں الزامات کا جو جواب دیا ہے وہ عدالت کو فراہم کر دیا جائے گا۔ مریم نوازکےانٹرویو کامتن تیارہو کر آگیا ہے ،وہ جمع کرا رہا ہوں۔ شاہد حامد دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شادی شدہ خاتون والد کے زیر کفالت شمار نہیں ہوتی جبکہ زیر کفالت کی کوئی خاص تعریف نہیں اس میں بزرگ اور بیروزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے تاہم غیر شادی شدہ بیٹی کی ذرائع آمدن نہ ہو تو وہ زیر کفالت ہو گی۔شاہد حامد نے کہا کہ زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیرکفالت کی کیٹیگری ہے۔ شاہدحامد کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹیگری 2015میں شامل کی گئی۔جسٹس آصف کھوسہ نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ زیر کفالت میں دوافراد کاذکر ہونےکا مطلب کیا ہے اس پر شاہدحامد نے کہاکہ اس کا مطلب ایک وہ خود اور دوسرااس کی اہلیہ ہے۔جسٹس عظمت نے مریم نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کر سکتے ہیں اپنی اہلیہ بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں توکیا وہ بے نامی ہو گی۔ جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر مشترکہ خاندانی کاروبار ہو اور بچے بڑے ہو چکے ہوں تو کیا صورتحال ہو گی جبکہ مشترکہ کاروبار میں کیا تمام بچے زیر کفالت تصور ہوں گے۔ شاہد حامد کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ اس حوالے سے کوئی واضح تعریف نہیں کی جا سکتی بلکہ کیس ٹو کیس معاملہ ہوتا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ اگر کوئی شخص خاندان کا سربراہ ہو تو بچے اور ان کے بچے زیر کفالت ہو جائیں گے جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ کاروباری خاندان میں مضبوط آدمی ایک ہوتا ہے، وہ مضبوط شخص پورے خاندان کو چلاتا ہے۔ کیا ہم پورے خاندان کو بلا سکتے ہیں جو اس مضبوط شخص کے زیر کفالت ہیں ۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ بالغ بچے اپنا کارروبار ہونے کے باوجود خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتے ہیں، کیا وہ بھی زیر کفالت تصور ہوں گے، شاہد حامد کا جواب میں کہنا تھا کہ وہ جذباتی اور ثقافتی طور پر زیر کفالت ہوتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی جبکہ ڈکشنری کے مطابق مکمل طور دوسرے پر انحصار کرنے والا زیرکفالت ہوتا ہے اگر قانون واضح نہ ہو تو عام ڈکشنری کے معنی ہی استعمال کئے جائیں گے۔جسٹس کھوسہ نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ کیا مریم نواز کیلئے نواز شریف نے زمین انہی تاریخوں پر خریدی جن تاریخوں میں حسین نواز نے والد کو تحفے رقم دی، بظاہر لگتا ہے حسین نواز نے والد کو رقم تحفے میں دی پھر والد نے یہ زمین مریم نواز کیلئے خریدی۔ پھر بیٹی قانونی طور جائیداد کی مالک بننے کے بعد رقم باپ کو واپس کرتی ہیں۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ اگر جائیداد کی خریداری کی تاریخوں میں غلطی ہے تو یہ کلریکل کوتاہی ہو سکتی ہے، جبکہ کلیریکل کوتاہی کے کبھی بھی سنگین نتائج نہیں نکلتے۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ تاریخیں بہت اہم ہیں، ہم نے رقم کی منتقلی اور تحائف کی آمد اور جائیداد کی خریداری کی تاریخیں دیکھنی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا شاہد حامد سے استفسار کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ خود بتا دیں کہ تاریخوں میں غلطی کو کیسے دور کیا جائے۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ زمین کی خریداری کی تاریخ اکتوبر اور مارچ کے درمیان کی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ ہمیں رقم منتقلی کے ذرائع بتا دیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ وزیر اعظم کو اپنے بچوں کی جانب سے ملنے والے تحائف کا گوشوارہ کل جمع کروا دوں گا۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ بی ایم ڈبلیو کی فروخت پر اتنا منافع کیسے ہوا۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ 2006میں حسن نواز نے لندن میں بی ایم ڈبلیو گاڑی خریدی اور دبئی بھجوا دی، دو سال بعد انھوں نے گاڑی مریم نواز شریف کو تحفے میں دے دی، جبکہ مریم نواز نے 37 لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کر کے گاڑی حاصل کر لی 2011 میں دیوان موٹرز سے نئی گاڑی خریدی اور انھوں نے پرانی بی ایم ڈبلیو کی قیمت 2 کروڑ اسی لاکھ لگائی۔ شاہد حامد نے کہاکہ اگر مریم صفدر اِنکم ٹیکس ریٹرن فائل کر رہی ہیں تو زیر کفالت کا معاملہ کیسے ہو سکتا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ نے بتانا ہے کہ مریم نواز کے پاس تحفوں کے علاوہ بھی ذرائع آمدن ہیں۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ مریم نواز ہر سال گھریلو اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ جسٹس عظمت نے مریم نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ زیر کفالت کے معاملے کوآمدنی اور اخراجات کے پیمانے پر جانچا جا سکتا ہے ہم ساس کی طرح حساب کتاب نہیں مانگ رہے کہ پیسہ کدھر خرچ ہوا۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، جس طرح سندھ اسمبلی میں ہوتی ہے ۔ سماعت کے دوران حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے موکلین کی جانب سے جواب جمع کروایا۔ وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کی پروفائل شامل ہے، جس میں قطری شہزادے کی کاروباری تفصیلات بھی فراہم کی گئیں، جن کے مطابق شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ قطری شہزادے کا 22 دسمبر 2016 کو لکھا گیا ایک اور خط بھی دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے، شہزادہ جاسم کے مطابق انھوں نے اپنے پہلے خط پر اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں دوسرا خط تحریر کیا ۔خط کے متن کے مطابق میاں شریف نے 1980 میں ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کی، یہ سرمایہ کاری نقد کی صورت میں کی گئی، 2005 میں اس سرمایہ کاری کے ضمن میں ان پر شریف خاندان کے 80 لاکھ ڈالر واجب الادا تھے جنہیں نیلسن اور نیسکول کمپنی کے شیئرز کی صورت میں ادا کیا گیا، نیلسن اور نیسکول کے بیرئیر سرٹیفیکیٹ کی ادائیگی لندن کے کاروباری شخصیت وقار احمد کے ذریعے کی گئی۔ حسن نوازاورحسین نے اپنے جواب میں مزید بتایا کہ دبئی اسٹیل ملز بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی، میاں شریف کی درخواست پر الثانی خاندان نے جدہ اسٹیل ملز میں 45 لاکھ ڈالر لگائے، میاں شریف کی وفات کے بعد قطری شہزادے نے حسین نواز کو اس سرمایہ کاری کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور الثانی خاندان کا ایک نمائندہ شریف خاندان سے جدہ میں ملا جس کے بعد رقم کی واپسی کےلئے لندن کے انٹر بینک ریٹ کے مطابق ادائیگی پر اتفاق ہوا اس سلسلے میں ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی رقم دبئی اسٹیل ملز کی فروخت سے حاصل کی گئی، جس کے گواہ طارق شفیع ہیں۔ طارق شفیع کا بیان حلفی، 1980 میں دبئی فیکٹری کی فروخت اور اس کی متعلقہ دستاویزات، عزیزیہ اسٹیل مل کی خرید و فروخت سے متعلق دستاویزات کی کاپی، التوفیق کیس سے متعلق حدیبیہ پیپر ملز کے آڈٹ کی کاپیاں بھی وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات کا حصہ ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل نومبر 2016 میں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے سامنے شریف خاندان کے وکلا نے قطری شہزادے کا خط پیش کیا تھا۔ عدالت میں پیش کیے گئے قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ میرے والد اور نواز شریف کے والد کے درمیان طویل عرصے سے کاروباری تعلقات تھے، میرے بڑے بھائی شریف فیملی اور ہمارے کاروبار کے منتظم تھے۔ خط کے مطابق ‘1980میں نواز شریف کے والد نے قطر کی الثانی فیملی کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی، میرے خیال میں 12 ملین درہم نواز شریف کے والد نے ہمارے کاروبار میں لگائے، جو انھوں نے دبئی میں اپنے بزنس کو فروخت کرکے حاصل کیے تھے۔ حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے خط میں مزید کہا کہ لندن کے چارفلیٹس 16( 16اے ، 17اور 17 اے ایون فیلڈ ہاس، پارک لین ، لندن )دو آف شور کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ تھے، ان آف شور کمپنیوں کے شیئر سرٹیفکیٹ قطر میں موجود تھے، لندن کے فلیٹس قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے منافع سے خریدے گئے اور دونوں خاندانوں کے تعلقات کی بنا پر یہ فلیٹس شریف خاندان کے زیر استعمال تھے جس کا وہ کرایہ دیتے تھے۔ جس کے بعد قطری شہزادے کے خط پر تنقید کا آغاز ہوگیا اور یہ کہا گیا کہ شریف خاندان پاناما کیس سے بچنے کے لیے قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے۔ وزیراعظم کی نااہلی کے حوالے سے جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم نواز شریف نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔ جواب میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں خطاب کے دوران کوئی غلط بیانی نہیں کی اور نہ ہی بطور رکن اسمبلی اور وزیراعظم انھوں نے حلف کی خلاف ورزی کی۔ جواب میں مزید کہا گیا کہ لندن فلیٹس وزیراعظم کی ملکیت نہیں اور وزیراعظم ان چاروں فلیٹس میں سے کسی کے بھی بینیفشل مالک نہیں۔ کیس کی سماعت (آج) جمعہ تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ (آج) بھی مریم نواز کے وکیل کیس سے متعلق دلائل دینگے، جبکہ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف، وزیراعظم کے وکیل، پی ٹی آئی کے وکیل اور شیخ رشید کیس سے متعلق اپنے دلائل پہلے ہی مکمل کرچکے ہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain