تازہ تر ین

” اٹینشن پلیز “ پاکستانی جوہری تنصیبات کی خفیہ دستاویزات پر بھارت کا حملہ

واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک ) امریکا سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے جاری کردہ دستاویز میں جہاں دیگر حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خفیہ ادارے کے حکام نے 1981 میں امریکی ارکان کانگریس کو خبردار کیا تھا کہ بھارت پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے کہوٹہ میں پاکستانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرسکتا ہے ، 1981 کے سی آئی اے کے ایک میمو کے مطابق ایجنسی کے ایک عہدے دار نے امریکی سینیٹرز کو اس طرح کے حملے کے امکان سے آگاہ کیا تھا تاہم سی آئی اے سرکاری طور پر اس کی تردید کرتی ہے۔ یہ میمو امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل اسپیشل اسسٹنٹ برائے جوہری پھیلاو¿ کےچیئرمین کو بھیجا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بعض سینئر امریکی حکام نے بھی اے بی سی نیوز کو اس بات کی تصدیق کی کہ بھارت کے کہوٹہ پر حملے کے امکانات پر امریکی حکومت میں سنجیدگی سے غور کیا جارہا تھا۔ اسی طرح سی آئی اے کا ایک میمو 17 اپریل 1981 کو چیئرمین نیشنل انٹیلی جنس کونسل (این آئی سی) کو بھیجا گیا جس میں بتایا گیا کہ سی آئی اے نے حملے کے امکانات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کی جوہری پیش رفت پر بھارت کے ممکنہ رد عمل کے حوالے سے ایک انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ مرتب کی جائے۔ یکم اپریل 1982 کو جاری ہونے والے ایک اور میمو میں انکشاف کیا گیا کہ صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد سی آئی اے حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ دو اہم معاملات ایسے ہیں جن پر مسلسل اور قریبی اسکروٹنی کی ضرورت ہے۔ان میں پہلا پاکستان کی جانب سے میزائل مواد کے حصول پر بھارت کے خیالات اور دوسرا بھارت میں ہتھیاروں کی تیاری کے لیے قابل انشقاق مواد کی دستیابی اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری شامل ہے۔80 کی دہائی میں جاری کیے جانے والے دیگر میموز کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری پروگرامز کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی سے امریکا اس قدر خوف زدہ تھا کہ اس نے پاکستان اور بھارت میں خصوصی ‘جوہری سفیر’ تعینات کرنے پر بھی غور کیا تھا۔ 6 ستمبر 1985 کو جاری ہونے والے ایک اور انتہائی خفیہ میمورنڈم کے مطابق اس تجویز پر کافی غور و خوض کیا گیا تاہم منظر عام پر لائے جانے والے دستاویز میں سے تفصیلات کو نکال دیا گیا۔ اس سے ایک سال قبل سی آئی اے کے دفتر برائے نیئر ایسٹرن اینڈ ساو¿تھ ایشین اینالسس نے ایک میمو تیار کیا اور امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے 2015 میں افشائ کیے جانے والے دستاویز کے مطابق اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے جنرل ضیائ الحق کو خبردار کیا تھا کہ ‘بھارت آپ کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے فوجی کارروائی کرسکتا ہے’۔ میمو میں درج ہے کہ “پاکستانی ایلچی کا خیرمقدم کریں گے”، وہ اس امر کی یقین دہانیاں چاہیں گے کہ امریکا مخصوص اقدامات کے حوالے سے بھارت کے ساتھ وعدہ وفا کرسکتا ہے۔پاکستانیوں کی جانب سے پیشکش قبول کیے جانے کے امکانات کی وضاحت کرتے ہوئے سی آئی اے کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کے پاس کھونے کو کچھ خاص نہیں لیکن پھر بھی ایلچی روانہ کرنے کے بارے میں پاکستان کے مخصوص ردعمل کا انحصار بھارت کے جوابی اقدام پر منحصر ہے۔ تاہم سی آئی اے نے اس بات ک اعتراف کیا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو ترک نہیں کرے گا کیوں کہ بھارت پہلے ہی ایک جوہری تجربہ کرچکا ہے۔ میمو میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ ‘جوہری سفیر’ کی تعیناتی پر بھارت کا کیا ممکنہ رد عمل ہوگا اور اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی ‘اس معاملے میں امریکی مداخلت کے حوالے سے کسی بھی ممکنہ معاہدے سے گریز کریں گے’۔ سی آئی اے کے تجزیہ کاروں نے بتایا کہ انہیں ‘اس بات کا بھی یقین نہیں تھا کہ راجیو گاندھی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا کوئی مثبت نتیجہ نکل سکے گا’۔ سی آئی اے نے نشاندہی کی کہ راجیو گاندھی بھارت اور پاکستان سے برابری کے سلوک کی امریکی خواہش کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ میمو میں کہا گیا کہ راجیو گاندھی پاکستان اور بھارت کے جوہری مسئلے کے حوالے سے متبادل حکمت عملیوں پر غور کررہے تھے جس میں ممکنہ طور پر جوہری عدم پھیلاو¿ کے بجائے ہتھیاروں پر کنٹرول کا آپشن شامل تھا۔ سی آئی اے کا یہ خیال تھا کہ اگر امریکا ‘آرمز کنٹرول رجیم میں غیر وابستہ ممالک کے کردار میں اضافے کے حق کو تسلیم کرلیتا ہے تو راجیو گاندھی جوہری عدم پھیلاو¿ کے حوالے سے امریکی کوششوں کا احترام کرنے کے حوالے سے سوچنا چاہیں گے’۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain