امریکی سائنسدانوں کا ٹرمپ کو خط، ایران سے ایٹمی معاہدہ پر کار بند رہنے کی اپیل

واشنگٹن (اے پی پی) اعلیٰ امریکی سائنسدانوں نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک خط لکھا ہے، جس میں ان سے ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے پر کاربند رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق سینتیس سائنسدانوں کے دستخط شدہ خط میں لکھا گیا ہے کہ یہ معاہدہ ایرانی جوہری پروگرام کے خلاف ایک مضبوط اور اہم اسٹریٹیجک فیصلہ ہے۔ دستخط کنندگان میں ماضی میں امریکی ایٹمی پروگرام سے وابستہ رہنے والے نوبل انعام یافتہ سائنس دان بھی شامل ہیں۔

مریضہ کی ہلاکت، وزیراعلیٰ کا سخت نوٹس، ایم ایس جناح ہسپتال معطل

لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے) جناح ہسپتال میں مریضہ کو بستر میسر نہ آنے اور فرش پر ہلاکت کے معاملے پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو معطل کر دیا گیا، وزیر اعلیٰ پنجاب نے انکوائری کے لئے بنائی گئی ٹیم کی رپورٹ پر دونوں صوبائی وزرائے صحت خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کو بھی طلب کرلیا ۔ بتایا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی زیر صدارت اہم اجلاس وزیراعلی ہاﺅس میں ہوا، اجلاس میں جناح ہسپتال میں فرش پر مریضہ کی ہلاکت کی ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی۔ تین رکنی انکوائری کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ میں ایم ایس جناح ہسپتال ظفریوسف اور ڈیوٹی پر مامور اسٹاف کو غفلت کا مرتکب ٹھہرایا ۔وزیراعلیٰ پنجاب نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر معطل کرنے کے احکامات جا ری کر دیئے۔جبکہ معاملے کی انکوائری کے لئے بنائی گئی ٹیم کی رپورٹ پر دونوں صوبائی وزرائے صحت خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کو بھی طلب کیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مریضوں کو فرش پر لٹانا بدترین غفلت ہے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایم ایس کی ذمہ داری ہے کہ مریضوں کے لئے انتظامات فراہم کرے۔ اس کے علاوہ وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ اس وقت موجود جن ڈاکٹروں نے اپنی ذمہ داری میں غفلت کا مظاہرہ کیا ان کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔

فوجی عدالتیں 3 روز بعد ختم …. مقدمات انسداد دہشتگردی عدالت منتقل ہونے کا امکان

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) دوسالہ مدت کے لیے قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کی میعاد ختم ہونے میں تین روز باقی رہ گئے لیکن فوجی عدالتوں کے مستقل قیام کیلئے وزارت داخلہ کا تیار کردہ قانونی مسودہ منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش نہ کیا جاسکا، حکومت کی جانب سے اس اہم ایشو پر مکمل خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سانحہ اے پی ایس کے بعد7 جنوری 2015 کو ملک بھر میں اسپیڈی ٹرائلز کے لیے آرمی ایکٹ اور 21ویں ترمیم کے ذریعے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ فوجی عدالتوں نے دہشت گردوں کے مقدمات کی تیزی سے سماعت (اسپیڈی ٹرائل) کرکے سال 2016ءمیں 161 مجرمان کو سزائے موت اور 113 کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ 12 دہشت گردوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔ انسداد دہشت گردی عدالتوں اوراسپیشل کورٹس برائے تحفظ پاکستان کی موجودگی کے باوجود اسپیڈی ٹرائلز کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور حکومت کی جانب سے اسے ضرب عضب اور نیشل ایکشن پلان کی کامیابی کے لیے ضروری قرار دیا گیا تاہم اب اس اہم ایشو پر حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے اور یہ واضح نہیں کہ حکومت ملٹری کورٹس کو مزید توسیع دینا چاہتی ہے؟ یا آئینی مدت ختم ہونے کے بعد یہ عدالتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت فوجی عدالتوں کو توسیع دینا چاہے تو اس کے لیے ایک اور آئینی ترمیم لانی پڑے گی تاہم اس حوالے سے ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ یاد رہے کہ آئین کے مطابق مذکورہ فوجی عدالتیں دو سال کے لیے قائم کی گئی تھیں اور سات جنوری دو ہزار سولہ کو یہ مدت پوری ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں اٹھائیس دسمبر دوہزار سولہ کو فوجی عدالتوں کے مستقل قیام کے لیے وزارت داخلہ نے تحفظ پاکستان ایکٹ (پی پی او) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کو یکجا کرکے نئے قانون کا مسودہ تیارکیا تھا وزیر داخلہ کی حتمی منظوری کے بعد اس مسودے کو ایکٹ بنانے کے لیے اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ وزارت داخلہ کے مطابق دونوں قوانین یکجا ہونے سے دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتیں مستقل طورپرقائم ہوجائیں گی۔ اس نئے مسودے میں کسی بھی شخص کو 90 روز کے لیے حراست میں رکھنے کی شق بھی شامل ہے۔ یہ شق فی الوقت پی پی او کی مدت ختم ہونے پر غیر مو¿ثر ہوچکی ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت 7 جنوری 2017ءکو ختم ہورہی ہے، مدت ختم ہوتے ہی اس میں زیر سماعت مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو منتقل ہوجائیں گے۔

ملازمہ زیادتی کیس …. چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے لیا

اسلام آباد (این این آئی، مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے جوڈیشل افسر کے گھر میں کم سن ملازمہ پر تشدد کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ سے آئندہ 24گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بچی کو تشدد کے بعد جلانے کی کوشش کی گئی تھی ¾معاملے کو سمجھوتے کے بعد دبادینے کا سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا۔یاد رہے کہ 3جنوری کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کے گھر میں مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد نے جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔10 سالہ بچی کے والد کی جانب سے بیان حلفی میں تحریر کیا گیا تھا کہ انھوں نے کسی دباو¿ کے بغیر راضی نامہ کرلیا ہے اور وہ مقدمہ میں نامزد جج کو فی سبیل اللہ معاف کرتے ہیں ¾عدالت جج یا ان کی اہلیہ کو بری کرے یا ضمانت دے انھیں کوئی اعتراض نہیں۔بچی کے والد نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے اپنے طور پر معاملے کی چھان بین کی ہے اور انھیں پتہ چلا ہے کہ یہ کیس جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔اس کے بعد اسلام آباد کی مقامی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود خان نے بچی پر تشدد کرنے والے حاضر سروس جج کی اہلیہ ملزمہ ماہین ظفر کی عبوری درخواست ضمانت 30 ہزار روپے کے مچلکے کے عوض منظور کرتے ہوئے علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔حاضر سروس جج کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ابتدائی طور پر بچی نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ سیڑھیوں سے گری جس سے اس کی دائیں آنکھ پر چوٹ آئی ¾ہاتھ پر موجود زخم سے متعلق اس کا کہنا تھا کہ وہ چائے گرنے سے جلا ہے تاہم ایف آئی آر کے مطابق، کم سن ملازمہ کا کہنا تھا کہ وہ تقریباً 2 سال سے جج کے گھر میں رہ رہی ہے۔گھریلوتشدد کیس، متاثرہ بچی طیبہ کے معائنے کیلئے نیا میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق تشدد کیس،متاثرہ بچی طیبہ کے معائنے کیلئے نیا میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے، ذرائع ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ میڈیکل بورڈ متاثرہ بچی کا طبی معائنہ کرے گا،طیبہ کو فیصل آباد سے لانے کیلیے ٹیم بھجوائی جائے گی، متاثرہ بچی طیبہ کو والدین فیصل آباد لے گئے۔ میڈیکل بورڈ میں پمز کے نامور ڈاکٹر اور ماہر نفسیات شامل ہیں،میڈیکل بورڈ کی تشکیل کیلئے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

پانامہ کیس عدالت کے اندر سنا جائے باہر یا چینلز پر عدالتی طرز کی بحث نہ کی جائے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اداروں کا وقار تلقین کرنے سے نہیں، ایکشن لینے سے بحال ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ سے درخواست ہے جو کوئی بھی کسی جج، بنچ یا اس کے سربراہ کا حکم نہ مانے تو اسے قانون اور ضابطے کے مطابق سخت سزا دی جائے۔ جسٹس کھوسہ کو پانامہ کیس روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کے فیصلے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے اس حکم پر من و عن عملدرآمد ہونا چاہئے کہ عدالتی کارروائی باہر بیان نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ چین سی پیک سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں مزید سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ وہ دنیا کی اکانومی کا نقشہ بدل رہا ہے۔ تمام بڑے بڑے سیاستدانوں، بیورو کریٹس، کاروباری حضرات اور صنعت کاروں کو تجویز دیتا ہوں کہ ایک فہرست مرتب کر کے چین کو بھجوائیں، اس میں مطالبہ کریں کہ دنیا کے فلاں فلاں شہروں میں انہیں ایک ایک گھر لے کر دیں، ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کریں اور یہ بھی مطالبہ کریں کہ پاکستان میں 43 فیصد آبادی جو غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے اسے اوپر لے کر آئیں۔ ملک یا اپنی دات کے لئے چین سے جو مانگ سکتے ہیں، مانگ لیں کیونکہ اس نے سی پیک منصوبہ بنایا ہے اور اسے کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ پر تشدد کے واقعے پر چیف جسٹس آف پاکستان کے سو موٹو نوٹس لینے پر ضیا شاہد نے کہا کہ خوش آئند بات ہے کہ ابھی ہمارے پاس ایسے جسٹس موجود ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا واقعی اس گھریلو ملازمہ بچی کے والد نے فی سبیل اللہ معاف کر دیا، موجودہ عدل و انصاف کے نظام میں اگر اس کا کوئی قتل بھی ہو جاتا تو وہ معاف کر دیتا کیونکہ وہ غریب ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ملک سے یہ تاثر ختم ہونا چاہئے کہ زور آور اور بالادست کے سامنے کوئی قانون یا ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔ ایسے صرف 2 فیصد لوگ ہیں، باقی ساری ان کی عوام ہے۔ جناح ہسپتال میں مریضہ کی ہلاکت کے واقعے پر انہوں نے کہا کہ ارباب اختیار بتائیں کہ کیا ایم ایس کو معطل کر کے ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد پوری ہو جائے گی۔ آبادی کے تناسب کے حساب سے ہسپتالوں کا نظام بہتر کرنے کی کوئی بات نہیں کرتا، ایک ایم ایس پر ڈنڈا لے کر چڑھ جانے سے کیا ہو گا؟ اگر لاہور زندہ لوگوں کا شہر ہوتا تو مذہبی جماعتوں کے جلوسوں کے بجائے احتجاج و مظاہرے اس پر ہوتے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے 34 میں سے 17 اضلاع میں نئے ہسپتال تعمیر کئے جائیں گے، اب تک ان پر کیوں کام نہیں شروع ہوا۔ 4 ماہ پہلے وزیراعظم کے ساتھ ایڈیٹرز کی ٹیم نے ملاقات کی تھی، انہوں نے احکامات دیئے تھے کہ 17 نئے ہسپتال شروع کئے جائیں اور موجودہ کی گنجائش بڑھائی جائے۔ اراکین اسمبلی ایوان میں آواز کیوں نہیں اٹھاتے کہ انہیں نئے ہسپتال بنانے اور موجودہ کی حالت زار بہتر کرنے کے لئے اتنی رقم درکار ہے؟ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ ایم ایس کو معطل کر کے اچھا کیا لیکن جب بیڈ نہیں ہوں گے تو آئندہ کیا کریں گے۔ ایسی خبروں سے بیڈز کی تعداد نہیں بڑھے گی۔ عملی اقدامات کی ضرورت ہے جبکہ میری معلومات کے مطابق وزیراعلیٰ نے فنڈز بھی جاری کر دیئے ہیں توپھر نئے ہسپتال کیوں نہیں شروع ہو رہے؟۔ انہوں نے کہا کہ سلمان تاثیر دوست تھے، ان سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ شیخوپورہ جانے پر بھی ان سے کہا تھا کہ آپ ان معاملات میں نہ پڑیں۔ اب ان کے صاحبزادے سے درخواست کرتا ہوں کہ محتاط رویہ اپنائیں، ایک المیہ دیکھ چکے، اب کیا دوبارہ دہرانا چاہتے ہیں؟ علماءکونسل سے بھی درخواست ہے کہ ملک میں پہلے ہی بہت مسائل ہیں، ان کو الجھانے کے بجائے سلجھانے کی کوشش کریں۔ اسمبلیوں میں بیٹھ کر ماہرانہ سطح پر کوئی درمیانی راستہ نکالیں اور اتفاق رائے کریں۔ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے کبھی اس پر مظاہرہ نہیں کیا کہ لوگ ہسپتالوں کے باہر کیوں سوتے ہیں؟ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ پانامہ عوام کا مقدمہ ہے، اس میں وزیراعظم اور ان کے خاندان پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ اگر اس پر بات نہیں کر سکتے تو مقدمے کو فوجی عدالت میں پیش کر دیں۔ لوکل عدالت ہو تو اس کی رپورٹ باہر آ ہی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوام کے پیسوں کی چوری کا مقدمہ ہے، سیاسی پارٹی ہونے کی حیثیت سے جج صاحبان کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی مطمئن کرنے کی ذمہ داری ہے۔ پی ٹی آئی نے پانامہ مقدمہ عدالت، پارلیمانی اور عوام کے سامنے رکھا ہوا ہے۔ ملک میں گورننس و کرپشن پر بات ہونا بند ہو گئی تھی، عمران خان نے عوام میں احتساب کا شعور اجاگر کیا۔ ملکی نہیں یہ بین الاقوامی ایشو ہے۔ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ میاں صاحب فکر نہ کریں، لوگ بھول جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس میں بھارت کے کاروباری جبکہ پاکستان کے سیاستدانوں بلکہ وزیراعظم کا نام آیا ہے۔ وزیراعظم سے احتساب شروع ہو تو معلوم ہو گا کہ ٹیکس ریفارمز کمیٹی کے سربراہ عثمان سیف اللہ کی دنیا میں سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں ہیں۔ چیف رپورٹر خبریں گروپ طلال اشتیاق نے کہا ہے کہ جناح ہسپتال واقعہ پر صرف ایم ایس کو معطل کرنا کافی نہیں، سیکرٹری ہیلتھ اور وزیر صحت سلمان رفیق کو بھی جوابدہ ہونا چاہئے۔ ایک مریضہ کی ہلاکت کے بعد باقی معاملات بھی انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ ایک بیڈ پر 3,3 مریض بڑے ہیں۔ سلمان رفیق نے وزیر بننے کے بعد ایک بار بھی کسی ہسپتال کا دورہ نہیں کیا۔ مریضہ کی ہلاکتوں کی ذمہ داری پنجاب حکومت کو جاتی ہے۔ گزشتہ 6,5 ماہ سے کسی ہسپتال میں بیڈ کی تعداد نہیں بڑھائی گئی، موجودہ بیڈز کی بھی یہ صورتحال ہے کہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتے ہیں۔ نمائندہ چینل ۵ ایچ آر قادری نے کہا ہے کہ گزشتہ روز لاہور میں اسلام بچاﺅ مارچ نکالا گیا، مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالی گئیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مارچ شام، برما اور کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ہے۔ عالمی سطح پر یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ مسلمان متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کی ریلیوں، جلوس اور مارچ کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔

سڈنی ٹیسٹ کا تیسرا روز: پاکستان کی پہلی اننگز میں بیٹنگ

سڈنی(ویب ڈیسک ) تیسرے ٹیسٹ کے تیسرے روز آسٹریلیا کے 538 رنز کے جواب میں پاکستان کی پہلی اننگز میں بیٹنگ جاری ہے۔سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے جا رہے ٹیسٹ کے تیسرے روز کا کھیل بارش کے باعث تاخیر سے شروع ہوا اور امپائرز نے میچ کو 68 اوورز تک محدود کردیا۔ پاکستان کی پہلی اننگز میں بیٹنگ جاری ہے اور قومی ٹیم نے 2 وکٹوں کے نقصان پر 147 بنا لئے ہیں۔ یونس خان 75 اور اظہر علی 68 رنز کے ساتھ وکٹ پر موجود ہیں۔گزشتہ روز آسٹریلیا کے 538 رنز کے جواب میں پاکستان نے اپنی پہلی اننگز کا آغاز کیا تو ڈیبیو کرنے والے شرجیل خان 4 رنز پر ہیزل ووڈ کا شکار بن گئے، 6 کے ہی مجموعی اسکور پر بابر اعظم بغیر کھاتہ کھولے ہیزل ووڈ کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے، جس کے بعد اظہر علی اور یونس خان نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور حریف بولرز کے خلاف کھل کر شاٹس کھیلیں، اظہر علی 58 اور یونس خان 64 رنز پر ناٹ آؤٹ ہیںِ۔ جوش ہیزل ووڈ نے 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ دوسرے روز کھیل کے اختتام پر پاکستان نے 2 وکٹوں کے نقصان پر 126 رنز بنا لئے تھے۔ دونوں وکٹیں جوش ہیزل ووڈ نے حاصل کیں۔اس سے قبل آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز 538 رنز 8 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کی۔ آسٹریلیا کی جانب سے ڈیوڈ وارنر نے 113، میٹ رینشا 184 اور پیٹر ہینڈس کومب نے 110 رنز بنائے۔ پاکستان کی جانب سے وہاب ریاض نے 3، عمران خان اور اظہر علی نے 2، 2 اور یاسر شاہ نے ایک وکٹ حاصل کی۔

سی پیک منصوبوں میں پیشرفت پر اظہار اطمینان …. سرمایہ کاروں کی پاکستان آمد

اسلام آباد ( نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم محمد نواز شریف نے وزارت پٹرولیم کو ہدایت کی ہے کہ موسم سرما میں گیس صارفین کو ریلیف فراہم کیا جائے جبکہ توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے مربوط رابطے بنائے جائیں۔ بدھ کے روز وزیراعظم سے وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی،اس موقع پر وفاقی وزیر پٹرولیم نے وزارت کے جاری منصوبوں سے متعلق وزیراعظم محمد نواز شریف کو بریفنگ دی جس میں ان کو ایل این جی کی درآمد سے متعلق پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ مختلف شعبوں کو ایندھن کی فراہمی کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں جن سے توانائی کے منصوبوں کی تکمیل اور شعبوں کی ضروریات پوری ہونے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کو ہدایت کی کہ موسم سرما کے دوران گیس صارفین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے تاکہ ان کو بنیادی ضروریات پوری کرنے میں آسانی ہو۔ انہوں نے وزیر پٹرولیم کو توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے مربوط رابطے بڑھانے کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ ملک کی توانائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے توانائی کے جاری منصوبوں کو جلد سے جلد مکمل کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ توانائی کے مسائل کا مکمل سد باب ہو سکے۔ قبل ازیں وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں بتایاگیا ہے کہ 300 میگاواٹ بجلی کے منصوبے کے معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں اور منصوبہ جلد شروع ہوگا، گوادر واٹرسپلائی منصوبہ ، ہسپتال، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس اورصوبائی ہیڈکوارٹرزمیںماس ٹرانزٹ ریلوے منصوبہ پربھی جے سی سی میں بات چیت ہوئی ¾چین نے سی پیک میں انڈس کیسکیڈ منصوبہ جات کا جائزہ لینے پر اتفاق کیا ہے وزیراعظم محمد نواز شریف نے سی پیک منصوبہ جات پرپیشرفت پرمجموعی طور پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے باعث عالمی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کرلیا ہے۔وہ بدھ کو یہاں اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے جس میں انہیں پاک چین اقتصادی راہداری کی چھٹی مشترکہ تعاون کمیٹی میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں آگاہ کیا گیا جو 29 دسمبرکو بیجنگ میں منعقد ہوئی تھی۔ اجلاس میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار، وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف، وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی، وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد اوردیگر سینئر حکام نے شرکت کی۔وزیراعظم کو بتایا گیا کہ 300 میگاواٹ بجلی کے منصوبے کے معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں اور یہ منصوبہ جلد شروع ہوگا، گوادر واٹرسپلائی منصوبہ ، ہسپتال، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس اورصوبائی ہیڈکوارٹرزمیںماس ٹرانزٹ ریلوے منصوبہ پربھی جے سی سی میں بات چیت ہوئی۔انہیں مزید بتایا گیا کہ چین نے سی پیک میں انڈس کیسکیڈ منصوبہ جات کا جائزہ لینے پربھی اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم نے وزارت پانی و بجلی کو سی پیک کے تحت 1.5ارب ڈالر مالیت کے مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن منصوبے کے معاہدے پرمبارکباد دی اور اس پرعملدرآمد کےلئے سرگرمی سے پیروی کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے ماس ٹرانزٹ منصوبہ جات کو چاروں صوبوں میں شامل کرنے پر پاکستانی ٹیم کو بھی مبارکباد دی اوروزیر ریلوے کو ہدایت کی کہ وہ منصوبہ جات کی فزیبلٹیزکےلئے اپنی وزارت کی ٹیکنیکل ایڈوائس فراہم کرکے صوبوں کو سہولت دیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی ظاہرکررہے ہیں جس سے ہماری کامیاب اقتصادی پالیسیوں اور سرمایہ کار دوست ماحول کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہراتی رابطے کے منصوبہ جات سے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں سرمایہ کاری آئے گی۔ وزیراعظم نے سی پیک منصوبہ جات پرپیشرفت پرمجموعی طور پر اطمینان کا اظہارکیا ۔ صنعتی پارکس کے قیام کے بارے میں وزیراعظم نے وفاقی حکام کو ہدایت کی کہ مجوزہ مقامات کو بجلی ، گیس اور ٹیلی مواصلات کی فراہمی کے عمل کا آغاز کریں۔ وزیراعظم نے اس امرکو سراہا کہ سی پیک منصوبہ جات میں صوبوں کی نمائندگی ہوئی اور یہ امر اہم ہے تاکہ ان منصوبہ جات کے فوائد وفاقی اکائیوں میں مساوی طور پر تقسیم ہوں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے سی پیک پر ہونےو الی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ڈیڈھ ارب ڈالر کی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے پر اور اس کے شرکاءکو مبارکباد دی جس کے تحت لاہور اور مٹیاری کے درمیان ہائی ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی۔ انہوں نے چاروں صوبوں کے لئے ماس ٹرانزٹ منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنے پر بھی شرکاءکو مبارکباد دی اور کہا کہ وزارت ریلوے منصوبوں کے لئے صوبوں کو تکنیکی مشاورت فراہم کرے گی۔ انہوں نے صنعتی پارکس کو بجلی، گیس اور مواصلات کی سہولتیں فراہم کرنے کی بھی تاکید کی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ سی پیک میں صوبوں کی نمائندگی خوش آئند اور اس میں صوبوں کا مساوی حصہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ مساوات کے بغیر کوئی ترقی بھی دیر پا ثابت نہیں ہو سکتی اس لئے اس عظیم منصوبے میں ہم تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہ یں تاکہ پاکستان کے کونے کونے میں ترقی کے سفر کے تحت خوشحالی ، امن اور ترقی کے تناور درخت سے عوام مستفید ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی موجودہ ترقی ہماری اقتصادی پالیسی اور وژن کا نتیجہ ہے، پاکستان میں بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا۔ بعد ازاں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری بیرسٹر محسن رانجھا کی وزیر اعظم پاکستان ، میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی ملاقات میں بیرسٹر محسن رانجھا نے ویزر اعظم میاں نواز شریف کو بلدیاتی انتخابات میں واضح کامیابی پر مبارکباد پیش کی وزیر اعظم نے اس موقع پر اپنے پارٹی منشور کے مطابق عوام کی فلاح اور خدمت کے عزم کو ظاہر کیا ۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں ترقیاتی منصوبوں ، صحت تعلیم اور معیشت کی بہتری کے لئے تمام پارلیمنٹیرینز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
نوازشریف

مریم والد کی زیر کفالت …. وزیراعظم نا اہل

اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کیس کو کسی صورت التواء کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا اور سماعت روزانہ صبح9 سے ایک بجے تک ہوگی ،کوئی بھی چیز بغیر سنے نہیں جانے دی جائے گی ، کیس کے ہر فریق کو سنا جائے گا ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل کو طلب کرتے ہوئے نئے سوالات اٹھا دیئے۔ بتایا جائے نواز شریف پنجاب کے وزیرخزانہ کب بنے ؟ نواز شریف وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف دوسری بار وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف ملک بدر کب کیے گئے ؟ بتایا جائے نواز شریف 1980 سے 1997 تک کاروبار اور سرکاری عہدہ رکھتے تھے ،ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم نے عوامی عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ نے ازسر نو پاناما کیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی، سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ججز اور عدلیہ کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے،عمران خان کے احتجاج سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے، آف شور کمنپیاں تو جہانگیر ترین اور رحمان ملک کی بھی ہیں، اس لئے عدالت سے درخواست ہے کہ تمام افراد کے خلاف تحقیقات کی جائے اور معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جائے۔ بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ معاملے کی سماعت کے لیے نیا بنچ بنایا گیا جو تمام دستاویزات کاجائزہ لے گا، کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کریں گے اور کسی کوالتواء نہیں ملے گا۔تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل کے آغاز پر کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کے نئے بنچ پر کوئی اعتراض نہیں۔ جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ بنچ پر اعتراض نہیں تو میڈیا پر بیان بازی سے گریز کریں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ میں نے نئے بنچ سے متعلق میڈیا پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے وزیراعظم کی 4 اپریل کی تقریر کا حوالہ دیا، نعیم بخاری کا کہناتھا کہ نواز شریف نے غلط بیانی کی، وہ صادق اور امین نہیں رہے، نااہل قرار دیا جائے، وزیر اعظم ٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے ہیں، عدالت ایف بی آر کو ٹیکس ریکوری کا حکم دے۔نعیم بخاری نے دلائل میں مزید کہا کہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جدہ اسٹیل مل کی فروخت سے لندن میں فلیٹس لیے، شریف خاندان کی دبئی میں سرمایہ کاری بے نامی تھی، مریم نواز آج بھی اپنے والد کے زیر کفالت ہیں،آئی سی آئی جے کی دستاویزات کو ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔نعیم بخاری نے مزید کہا کہ چیئرمین نیب اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے،عدالت چیئرمین نیب کوتاخیرکے باوجود ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کرنے کا کہے۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین نیب اپنا جواب جمع کراچکے ہیں۔ چیئرمین نیب کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ دلائل کے دوران نعیم بخاری نے وزیر اعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ نواز شریف نے تقریر میں کہا کہ جدہ سٹیل مل کی فروخت سے لندن فلیٹس لئے، ان کے پاس سعودی عرب اور دبئی میں سرمایہ کاری کے ثبوت ہیں لیکن یہ سچ نہیں، شریف فیملی کی جانب سے بینک ٹرانزیکشن کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا، طارق شفیع کاحلف نامہ جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حلف نامہ اور فیکٹری کے دستاویزات میں دستخط ایک جیسے نہیں، آئی سی آئی جے کی دستاویزات کو ابھی تک چلنج نہیں کیا گیا، نواز شریف نے غلط بیانی کی، وہ صادق اور امین نہیں رہے ، اس لیے نوازشریف کو نااہل کیا جائے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ نواز شریف کی تقریر میں دبئی فیکٹری کا کوئی ذکر نہیں، نواز شریف کی تقریر جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کی مطابقت بھی واضع کریں۔ جسٹس اعجازالحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ آپ کا انحصار وزیر اعظم کی دو تقریروں پر ہے،کیا وزیر اعظم کی یہ دستخط شدہ دستاویز ہیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس وزیر اعظم کی دستخط شدہ کوئی دستاویز نہیں ہے، آئی سی آئی جے کی دستاویزات اور رپورٹس عالمی سطح پر جاری ہوئیں لیکن انہیں ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔ عمران خان کے وکیل نے عدالت کے روبرو مو¿قف اختیار کیا کہ اثاثوں سے متعلق وزیراعظم اور ان کے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے، وزیراعظم نے کہا کہ گلف سٹیل کے بعد جدہ مل خریدی جبکہ بچوں نے کہا کہ گلف مل کے بعد قطر میں سرمایہ کاری کی جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ کیا قطر میں سرمایہ کاری کا ریکارڈ ہے ، نعیم بخاری نے جواب میں کہا کہ اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ قطر سے لندن تک کوئی بینک ٹرانزیکشن موجود نہیں، سب کام ہوا میں کیا گیا ہے ، فلیٹ نمبر 16 اور 16 اے 10 جولائی 1995 میں ایک ملین 75 ہزار پاو¿نڈ میں خریدے گئے، دونوں فلیٹس نیلسن کمپنی نے خریدے۔ فلیٹ نمبر 17 اے 23 جولائی 1996 میں 2 لاکھ 45 ہزار پاو¿نڈ میں خریدا گیا۔ لندن فلیٹس کی حقیقی مالک مریم صفدر ہیں اور وہ وزیراعظم کی زیرکفالت ہیں۔اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اب تک مختلف موقف سامنے آئے ہیں، دبئی سے قطر اور قطر سے جدہ اور جدہ سے لندن کے موقف سامنے آئے ہیں، شیخ رشید نے کہا تھا کہ پیسہ برکت والا ہے 2006 تک پیسہ خودبخود بڑھتا رہا، وزیراعظم نے کسی خطاب اور جواب میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا، ہمیں ایسا ریکارڈ نہیں دیا گیا کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ فلیٹ 2006 سے پہلے قطری خاندان کے تھے۔ ملکیت ثابت کرنا اتنا آسان نہیں اور معاملہ ملکیت کا نہیں بلکہ ملکیت کی تاریخوں کا ہے، اگر جائیداد میاں شریف کی تھی تو اس کا بٹوارہ سب میں ہونا چاہئے تھا، قطر کے الثانی اور شریف خاندان کا معاملہ کسی فورم پر تو طے ہوا ہوگا، میاں شریف کی وصیت تھی تو اس کو بھی سامنے آنا چاہئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ انصاف عدالت کے سامنے موجود شواہد کی بنیاد پر ہوتاہے ، انصاف وہ نہیں جو آپ کے موکل عمران خان کہیں۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ مجھے عدالت پر پورا بھروسہ ہے۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم کے بقول اتفاق فیکٹری قومیائی گئی تو شریف خاندان کے پاس روپیہ بھی نہ رہا ، سوال یہ ہے کہ شریف خاندان کے پاس پیسہ کیسے آیا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دبئی سٹیل مل کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ فیکٹری کی فروخت پر کیا کیا گیا ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ فیکٹری فروخت کے معاہدوں میں بینک گارنٹی موجود ہے ، اس کا مطلب ہے بینک کی ٹرانزیکشن ہوئی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ دبئی سے رقم قطر یا جدہ کیسے گئی ، رقم منتقلی کی بینک ٹرانزیکشن کہاں ہے ، جسٹس آصف نے کہا کہ وزیر اعظم نے تقریر میں کہا کہ گلف فیکٹری سے 33 ملین درہم ملے ، طارق شفیع کے مطابق گلف فیکٹری سے 12 ملین درہم ملے ، جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ فیکٹری کے واجبات کا کیا بنا ، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ، فیکٹری سے 12 ملین درہم ملے جو ریکارڈ پر ہے ، وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ وزیراعظم نے کہا کہ جدہ فیکٹری دبئی کے سرمائے سے لگائی ، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ واجبات ادا ہوئے تو ہمیں اندھیرے میں کیوں رکھا جا رہا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل کے سامنے نئے سوالات اٹھا دیئے ، بتایا جائے نواز شریف پنجاب کے وزیرخزانہ کب بنے ؟ نواز شریف وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف دوسری بار وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف ملک بدر کب کیے گئے ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ نواز شریف 1980 سے 1997 تک کاروبار اور سرکاری عہدہ رکھتے تھے ، دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم نے عوامی عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رقم کی دبئی سے قطر جدہ منتقلی کی تفصیلات دوسرا فریق دے گا ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ رقم کی منتقلی سے متعلق دبئی اور قطر کے قوانین کیا ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر دبئی اور قطر میں قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان میں سزا ہو سکتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 12 ملین درہم دو دہائیوں تک کہاں رہے ، وزیر اعظم کے بقول دبئی سرمایہ کاری کی رقم بیرون ملک ہے ، بعد میں بتایا کہ 12 ملین درہم کی رقم قطر میں لگائی ، وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں غلط حقائق بیان کیے ، وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں جھوٹ بولا ، وزیر اعظم کے بیان میں قطر کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نے آپ کا پوائنٹ نوٹ کر لیا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت سے ایسی تشریح نہ کروائیں جس سے کوئی الیکشن لڑ نہ سکے۔ جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ آئینی و قانونی حق پر قدغن نہیں لگاتے ، ہمارے سوال یا آبزرویشن کو فیصلہ بنا کر پیش نہ کریں ، مشکل سوال بھی پوچھتے ہیں کہ تاکہ وکیل گھبرا کر سچ بول دے ، ہم سوالات سے چیزیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہمارے سوالات اور آبزرویشنز کو زیر غور نہ لایا جائے۔پوراپاکستان پریس کانفرنس کے لیے پڑا ہے، عدالت کوسیاسی اکھاڑہ نہ بنائیں، عدالت میں پریس کانفرنس نہیں ہونی چاہئے، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا، کم از کم احاطہ عدالت میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔اس دوران چیئرمین تحریک انصاف عمران خان بھی روسٹرم پر آ گئے، ججز سے مکالمے کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نیوز کانفرنس وضاحت کے لیے مجبوری میں کرنا پڑتی ہے لہذا اس کو عدالتی کارروائی پر دباو¿ نہ سمجھا جائے، اپوزیشن کا کام ہی تنقید کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے ہم ثبوت پیش نہیں کر رہے جبکہ بیرون ممالک میں تحقیقات ادارے کرتے ہیں اپوزیشن نہیں، جہاں بھی عوامی پیسہ چوری ہو گا آواز اٹھائیں گے۔جسٹس آصف کھوسہ نے عمران خان سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کی پریس کانفرنس پر کوئی پابندی نہیں لگائی، صرف سپریم کورٹ کے احاطے کو استعمال نہ کرنے اور ججز کے سوالات اور ریمارکس کو پریس کانفرنس میں استعمال نہ کرنے کا کہا کیونکہ سوالات وکلاء سے سچ نکالنے کے لیے ہوتے ہیں۔ عدالت نے پاناما لیکس کی سماعت (آج)جمعرات تک تک ملتوی کر د ی۔

بلوکی پاور پلانٹ کا دورہ …. کالا باغ ڈیم کی تعمیر بارے بھی اہم خبر

لاہور، پتوکی، چھانگا مانگا (اپنے سٹاف رپورٹر سے، نمائندگان خبریں) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے بلوکی مےں 1223 مےگاواٹ کے گیس پاور پلانٹ کا دورہ کیا۔ وزےراعلیٰ نے زےر تعمےر گےس پاور پلانٹ کے مختلف حصے دےکھے اور منصوبے پر کام کی رفتار کو سراہا۔ وزےراعلیٰ نے پلانٹ کے معائنے کے بعد مےڈےا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت دور نہےںجب مخالفےن بھی ہمارے توانائی منصوبوں کی تعرےف کرنے پر مجبور ہو جائےں گے کےونکہ وزےراعظم محمد نوازشرےف کی قےادت مےں مسلم لےگ (ن) کی حکومت نے توانائی منصوبوں مےں رفتار ،شفافےت اوربچت کے جو اعلیٰ معےار قائم کےے ہےں ان کی عالمی سطح پر مثال نہےں ملتی۔سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ڈکٹےٹر مشرف کو داسو اور بھاشا ڈےم بنانے کا خےال کےوں نہےں آےا؟مشرف نے توانائی کے حوالے سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاےا۔ محرومیوں کے خاتمے اور ملک کی ترقی کیلئے وزیراعظم کی قیادت میں دن رات کام جاری ہے۔ ماضی کے حکمرانوں نے قوم اور ملک کا بیڑا غرق کےا اور ماضی میں ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ڈکٹیٹر نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ماضی کے حکمرانوں نے قوم کو سرنگوں کیا اور ہم سرخرو کریں گے۔ ہم جانتے ہےں کہ پاکستان کی قسمت بجلی کے منصوبوں سے جڑی ہوئی ہے اوربجلی کے منصوبوں مےں تےزی کےلئے انجےنئرز کی منت سماجت مےرے لئے باعث عار نہےں۔ مےں اس قوم کےلئے سب کچھ کرنے کےلئے تےار ہوں ۔انہوںنے کہا کہ وفاقی اورپنجاب حکومت بلوکی،حوےلی بہادرشاہ اوربھکی مےں اپنے وسائل سے 3600مےگاواٹ کے گےس پاور پلانٹس لگارہی ہےں اور ےہ تےنوں بجلی کے منصوبے صرف 27ماہ مےں مکمل ہوجائےں گے جبکہ ماضی مےں پاکستان کے اندر اس طرح کے منصوبے 60ماہ مےں بھی مکمل نہےں ہوتے تھے ۔پاکستان کی 70سالہ تارےخ مےں ےہ اےک رےکارڈ ہو گا کہ کوئی منصوبہ بغےر اضافی اخراجات اور مقررہ مدت مےں مکمل ہو گا۔ یہ اسی طرح ممکن ہوا ہے کہ تمام لوگوں نے دن رات محنت کی اور جانفشانی کے ساتھ کام کیا۔ پاکستان کے اندر گدو پاور پلانٹ منصوبہ 60 مہینوں میں مکمل ہوا لیکن بلوکی گیس پاور پلانٹ 27 ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہو جائے گا۔ بلوکی پاور پلانٹ کے منصوبے پر جس تےز رفتاری سے کام جاری ہے اس کی نظےر نہےں ملتی ۔منصوبے پر ہزاروں انجےنئرز اور محنت کش کام کر رہے ہےں ۔جنرےٹرز کی تنصےب مکمل ہوچکی ہے جبکہ مارچ مےں ٹربائنز بھی آجائیں گی۔جولائی مےں پہلی اور اگست مےں دوسری ٹربائن چلے گی جس سے مجموعی طور پر 750مےگاواٹ بجلی نےشنل گرڈ مےں شامل ہو گی جبکہ جنوری 2018ءمےں ےہ منصوبہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کےلئے 1223مےگاواٹ بجلی مہےا کر رہا ہوگا۔ موجودہ حکومت نے 2014ءکے دھرنے اور 2016ءکے لاک ڈاو¿ن کے باوجود بجلی کے منصوبوں کو تےزی سے آگے بڑھاےا ہے ۔اگرچہ دھرنوں اورلاک ڈاو¿ن سے ملک مےں ہےجانی کےفےت پےدا ہوئی اور قوم کا قےمتی وقت ضائع کےا گےا لےکن اس کے باوجود ہم بجلی منصوبوں کو آگے بڑھاتے گئے ہےں اور رواں برس کے اختتام تک توانائی منصوبوں کی تکمےل سے بجلی کی بنا پر اندھےرے ختم ہو جائےں گے اور ہر طرف اجالا ہوگا اور لوڈ شےڈنگ ختم ہو گی۔ اس طرح ماضی کی کئی دہائےوں کا بوجھ قصہ پارےنہ بن جائے گا۔ زراعت،صنعت ،تعلےم ،صحت اوردےگر شعبوں کےلئے وافر بجلی دستےاب ہوگی۔ےہ وزےراعظم محمد نوازشرےف کی قےادت مےں موجودہ حکومت کا بہت بڑا کرےڈٹ ہے جبکہ سی پےک کے تحت توانائی کے منصوبے اس کے علاوہ ہےں جس مےں 1320 مےگا واٹ کے ساہےوال کول پاور پراجےکٹ پر اتنی تےزی سے کام ہورہا ہے کہ ےہ منصوبہ مقررہ مدت 25دسمبر2017ءکی بجائے جون 2017ءمےں مکمل ہوجائے گا۔ مےں ملک و قوم کےلئے بجلی کے منصوبوں کی تےزی سے تکمےل کی خاطر منصوبوں پر کا م کرنے والوں کی منت سماجت کرنا کوئی عار نہےں سمجھتا کےونکہ مےرا ےہ اقدام صرف اور صرف اس قوم کےلئے ہے۔انہوںنے کہاکہ وزیراعظم کی قیادت میں گیس کے ان منصوبوں میں 112ارب روپے کی بچت کی گئی ہے اور ملک کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی جبکہ صرف بلوکی کے منصوبے مےں 40ارب روپے کی بچت کی گئی ہے ۔یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ چین کی کمپنی ہاربن انٹرنیشنل او رامریکن کمپنی جنرل الیکٹرک نے گدو پاور پلانٹ 8لاکھ 34ہزار ڈالر فی میگاواٹ کے حساب سے لگایا تھا اور آج ےہی کمپنیاں بلوکی میں گیس کی بنیاد پر 4لاکھ 69ہزار ڈالر فی میگا واٹ سے منصوبہ لگا رہی ہےں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کمپنیوں اور سرمایہ کارو ںکو وزیراعظم محمد نوازشریف کی قیادت پر مکمل اعتماد ہے بلکہ تمام امور انتہائی شفاف اور پیشہ ورانہ اندازمیں طے ہوتے ہیں۔ حکومت کی شفاف پالیسی کی بدولت ہی یہ کمپنیاں اتنی کم قیمت پر بجلی کے منصوبے لگانے پر مجبور ہوئی ہےں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے شفافیت اور اعلیٰ معیار کے جو سنہری اصول متعارف کرائے ہیں وہ ان کی پہچان بن چکے ہےں۔ پاور پلانٹ پر 3 ہزار سے زائد انجینئرز اور ورکرز کام کر رہے ہیں۔پاور پلانٹ کے آپریشنل ہونے سے گرمیوں میں لوڈشیڈنگ 2 گھنٹے کم ہوگی۔ دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل گیس ٹربائنز لگائی جا رہی ہیں۔ ایندھن کی مد میں سالانہ 7 ارب روپے کی بچت ہوگی اور صارفین کو سستی بجلی ملے گی۔انہوںنے کہا کہ 70 برس مےں توانائی منصوبوں کے نام پر قوم سے سنگےن مذاق کےاگےا ہے۔ نےلم جہلم ہائےڈرو پاورپراجےکٹ کا بےڑا غرق کےا گےا۔ ماضی کے حکمرانوں نے قومی دولت کو بے دردی سے لوٹا۔ 985 مےگاواٹ کے نےلم جہلم پراجےکٹ کو 2003ءمےں اس وقت کے ڈکٹےٹر جنرل مشرف نے شروع کےا اورابھی تک ےہ منصوبہ نامکمل ہے ۔غرےب قوم کے اس پرساڑھے چار ارب ڈالر لگ رہے ہےں ۔ ےہ سب کےا دھرا اس ڈکٹےٹر کا ہے جو مکا دکھا کر کہتا تھا کہ سب سے پہلے پاکستان۔وزےراعظم محمد نوازشرےف نے بھی نےلم جہلم پاور پراجےکٹ مےں تاخےر پر ناراضگی کا اظہار کےا ہے تاہم موجودہ چےئرمےن واپڈا نے ےہ منصوبہ 2018ءکے شروع مےں مکمل کرنے کی ےقےن دہانی کرائی ہے۔ 1223 مےگاواٹ کے بلوکی گےس پاور پلانٹ منصوبے پر 562ملےن ڈالرخرچ آرہا ہے جبکہ نےلم جہلم پر ساڑھے چار ارب ڈالر خرچ ہورہے ہےں۔ہمارے دور مےں ترقےاتی منصوبے انتہائی تےزرفتاری سے مکمل ہورہے ہےں اورقومےں اس طرح بنتی ہےں۔ماضی مےں لوٹ مار کے ذرےعے قوم کو تباہ کےاگےا۔ہمارے دور مےں قوم سرخرو ہو رہی ہے جبکہ ماضی مےں اس کو سرنگوں کےا گےا۔ ہمارے دور مےں قوم آگے بڑھ رہی ہے جبکہ ماضی مےں اس کو پےچھے کی طرف دھکےلا گےا ۔70ءبرس کی تارےخ اٹھا لےں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔وزےراعلیٰ نے بلوکی گےس پاور پلانٹ پر کام کرنے والے انجےنئرز اورمحنت کشوں کو شاباش دےتے ہوئے کہا کہ آپ ملک کی تعمےر وخوشحالی کے منصوبے کے کارکن ہےں۔تارےخ مےں آپ کا نام سنہری حروف مےں لکھا جائے گا۔مےری آپ کو تلقےن ہے کہ آپ محنت سے کام کرےں ۔انشاءاللہ ےہ منصوبہ مکمل ہوگا تو وزےراعظم خود آپ کو آکر شاباش اور انعام دےںگے جبکہ پنجاب حکومت بھی آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انعام دے گی ۔وزےراعلیٰ نے منصوبے کے چےف اےگزےکٹو آفےسر راشدمحمود لنگڑےال، ای پی سی کنٹرےکٹر چےنی کمپنی اور کنسلٹنٹ کو بھی مبارکباد دی۔مےڈےا کے سوالات کے جواب مےں وزےراعلیٰ نے کہا کہ نےازی صاحب کے دھرنوں اوراحتجاجی سےاست سے ملک و قوم کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے ۔پاناما کےس عدالت عظمیٰ مےں ہے اور ہم عدالت عظمیٰ اوراس کے فےصلوں کا احترام کرتے ہےں۔نےازی صاحب کی طرح نہےں کہ فےصلہ حق مےں آےا توسابق چےف جسٹس افتخار چوہدری بہت اچھے، خلاف آگےا تو برے ۔ عدالتی فےصلوں کا سب کواحترام کرنا چاہےے،نےازی صاحب کی طرح نہےں کہ فےصلہ حق مےں آےا توٹھےک ، خلاف آےا تو نا منظور۔نےازی صاحب کا ےہ روےہ انصاف کی دھجےاں اڑانے کے مترادف ہے ۔جس قوم کو انصاف مل رہا ہووہ کبھی ہارا نہےں کرتیں۔اےک اور سوال کے جواب مےں انہوںنے کہا کہ پن بجلی کے منصوبے بھی ملک کی ترقی وخوشحالی کے لئے اہم ہےں ۔ماضی مےں ڈکٹےٹر مشرف نے داسو ڈےم اوربھاشا ڈےم کےوں نہےں بناےا حالانکہ وہ نعرہ سب سے پہلے پاکستان کا لگاتے تھے ۔وزےراعظم نوازشرےف کو ےہ کرےڈٹ جاتا ہے کہ چار ہزار مےگاواٹ کے داسو ڈےم پر کام شروع ہوگےا ہے جبکہ بھاشا ڈےم کے لئے اراضی حاصل کرلی گئی ہے ۔انہوںنے کہا کہ بلوکی گےس پاور پلانٹ مےں جو ٹربائنز لگائی جارہی ہےں ان کی استعداد کار دنےا مےں سب سے زےادہ ہے۔اےک اور سوال کے جواب مےں انہوںنے کہا کہ وزےراعظم محمد نوازشرےف نے اےک بار کالاباغ ڈےم بنانے کا فےصلہ کےاتھا اگرچہ ےہ اےک قابل عمل منصوبہ ہے اوراس کی افادےت سے انکارنہےں کےاجاسکتا لےکن جب تک پوری قوم ےکسونہےں ہوگی اورچاروں بھائی متفق نہےں ہوں گے تو اس پر کام شروع کرنا پاکستان کی ےکجہتی کے خلاف ہے ۔کالاباغ ڈےم کے منصوبے پر صوبے اختلاف رکھتے ہےںاورےہ بھی ڈکٹےٹر شپ کا اےک تحفہ ہے ۔ انہوںنے کہاکہ کالاباغ ڈےم کے منصوبے پر چاروں صوبوں کا اتفاق انتہائی ضروری ہے ۔ماضی کے حکمرانوں نے داسو اور بھاشا ڈےم پر بھی توجہ نہےں دی۔اےک اورسوال کے جواب مےں وزےراعلیٰ نے کہا کہ نےلم جہلم کی طرح نندی پور پاور پراجےکٹ بھی ماضی کے حکمرانوں کی لوٹ مار کی داستان سناتا ہے لےکن اب ےہ منصوبہ بجلی پےدا کررہا ہے ۔اگر ہماری حکومت اس منصوبے کو آپرےشنل نہ کرتی تو غرےب قوم کے 33ارب روپے کھائے جاتے ۔ انہوںنے کہا کہبلوکی پاور پلانٹ کی تنصیب سے 4لاکھ گھرانوں کی بجلی کی ضروریات پوری ہوں گی ا ور 2کروڑ آبادی کے تمام گھرانے مستفید ہوں گے- نیشنل پاور پارکس پراجیکٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر راشد محمود لنگڑےال نے وزےراعلیٰ کو منصوبے پر ہونے والی پےش رفت سے آگاہ کےا اوراس ضمن مےں برےفنگ دی۔صوبائی وزےر صنعت شےخ علاو¿الدےن،اراکےن اسمبلی اورمتعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے صوبے میں صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ کیلئے مختلف کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد اور اس ضمن میں تحصیل، ضلع ، ڈویژن اور صوبائی سطح پر کھیلوں کے مقابلے منعقد کرانے کیلئے جامع پلان مرتب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے ”خادم پنجاب سپورٹس ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام“ بھی رواں برس شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے نیا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آئے گا اور نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ صوبے میں نوجوانوں کےلئے صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جس میں کھیلوں کے فروغ، کھیلوںکے مقابلوں او رمیدانوں کے حوالے سے مختلف تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نصابی سرگرمیوں کےساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کا فروغ بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور حکومت اس مقصد کیلئے جامع پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ صوبہ بھر میں کھیلوں کے مقابلے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ مقابلے تحصیل، ضلع، ڈویژن اور صوبائی سطح پر منعقد کرائے جائیں گے اور نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں کو پوزیشن ہولڈرز طلبا و طالبات کی طرز پر نقد انعامات اورسرٹیفکیٹس دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کےساتھ ساتھ کھیلوں کے میدان میں بھی آگے لانا ہے اور ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف سے لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے لارڈمیئر کرنل (ر) مبشر جاوید نے ملاقات کی۔ وزیر اعلیٰ نے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کا قیام شہریوں کے نچلی سطح پر مسائل کے حل میں ممدو معاون ثابت ہو گا اور بلدیاتی ادارے عوامی مسائل کے حل میں مو¿ثر کردار ادا کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ خدمت، محنت اور دیانت کو شعار بنائیں۔انہوں نے کہا کہ عوام کی بے لوث خدمت اور ان کے مسائل کا حل بلدیاتی نمائندگان کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے کیونکہ خدمت، محنت اور دیانت کو اپنا کر ہی شہریوں کی توقعات پر پورا اترا جاسکتا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے پٹیالہ گھرانے کے معروف کلاسیکل گلوکار استاد فتح علی خان کے انتقال پر گہر ے دکھ اور افسوس کا اظہارکیا ہے – وزیر اعلی نے کہا کہ استا د فتح علی خان کی وفات سے کلاسیکل موسیقی میں جو خلاپیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے شیخوپورہ میں ایک تقریب کے دوران ہوائی فائرنگ کے حوالے سے میڈیا پر نشر ہونے والی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او شیخوپورہ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے فائرنگ کے واقعہ میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہوائی فائرنگ کرنے والے افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

اقتصادی راہداری کیلئے وفاق سے تعاون کا فیصلہ …. کسی کو سیاست نہیں کرنے دینگے

کراچی (این این آئی)پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل کے لیے وفاق سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا ۔کیونکہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس منصوبے سے پاکستان کا آئندہ مستقبل وابستہ ہے ۔وفاقی حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کے تمام منصوبوں پر صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرے اور تمام صوبوں میں سی پیک میں شامل منصوبوں پر جلد از جلد کام شروع کرایا جائے اور جن منصوبوں پر کام جاری ہے ان کو جلد از جلد مکمل کیا جائے ۔سی پیک میں کراچی سرکلر ریلوے ،اکنامک زون کا قیام اور کیٹی بندر کا شامل ہونا سندھ حکومت کی بڑی کامیابی ہے ۔پیپلزپارٹی اس منصوبے پر کسی کو سیاست نہیں کرنے دے گی ۔وفاقی حکومت سی پیک منصوبے پر آل پارٹیز کانفرنس میں منظور کی گئی قرارداد پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنائے۔اگر وفاق کی جانب سے سی پیک منصوبے میں صوبوں کو نظرانداز کیا گیا تو پیپلزپارٹی پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر آواز اٹھائے گی ۔یہ فیصلہ بدھ کو بلاول ہاو¿س میں پیپلزپارٹی کے سندھ سے تعلق رکھنے والے قومی اور سندھ اسمبلی کے ارکان کے اجلاس میں کیا گیا ۔اجلاس کی صدارت پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کی ۔اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے حالیہ دورہ چین اور سی پیک منصوبے کے حوالے سے قائم جوائنٹ کمیٹی فار کوآپریشن کے اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کے حوالوں سے آگاہ کیا ۔وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ چین میں ہونے والے اجلاس میں اس کمیٹی نے سندھ کے تین منصوبوں کیٹی بندر ،اکنامک زون اور کراچی سرکلر ریلوے کو شامل کرلیا ہے ۔وزیراعلیٰ نے بتایا کہ ان منصوبوں کا سی پیک میں شامل ہونا سندھ حکومت کی بڑی کامیابی ہے ۔ان منصوبوں کے مکمل ہونے سے سندھ میں خوشحالی آئے گی ،روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور صوبے میں غربت کم ہوگی ۔پارٹی قیادت نے وزیراعلیٰ کو ہدایت کی کہ سی پیک میں شامل سندھ کے منصوبوں پر جلد از جلد کام کے آغاز کے لیے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا جائے ۔اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ سی پیک منصوبہ معاشی طور پر گیم چینجر ہے ۔اس منصوبے کی تکمیل سے دنیا کے سیکڑوں ممالک کو فائدہ ہوگا ۔سی پیک منصوبے سے پاکستان میں ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی ۔اس منصوبے پر کام پیپلزپارٹی کی حکومت نے شروع کیا تھا اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ بغیر کسی رکاوٹ کے جلد از جلد مکمل ہو ۔اس حوالے سے پیپلزپارٹی ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہے ۔انہوںنے کہا کہ حکمران اس منصوبے پر چھوٹے صوبوں کے تحفظات کو بھی دور کریں ۔سی پیک منصوبے سے ہونے والی ترقی سے پاکستان کی معیشت کو بے مثال ترقی ملے گی ۔انہوںنے کہا کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل کے لیے پیپلزپارٹی ہرممکن کردار ادا کرے گی ۔انہوں نے کہا کہ اگر اس منصوبے میں وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں اور پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا تو پھر ہم پارلیمنٹ سمیت ہر سطح پر اس مسئلے کو اٹھائیں گے تاہم اس منصوبے پر سیاست نہیں کریں گے اور نہ ہی سی پیک کو سیاست کی نظر ہونے دیں گے ۔آصف علی زرداری نے سی پیک میں سندھ کے تین منصوبوں کو شامل کرانے پر وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی کارکردگی کو سراہا ۔سی پیک کا خیال اور پالیسی دے کر ہم نے اپنا اشتہارتاریخ میں دے دیا ہے،میڈیا میں کریڈٹ لینے کے اشتہار کون دے رہا ہے اس سے ہمارا سروکار نہیں۔ہم سب سی پیک کے مالک ہیں ۔سی پیک پر بات کرنے کے لیے کتاب لکھنا پڑے گی ۔پانچ سوچینی پاکستان پرپی ایچ ڈی کر رچکے ہیں، اب وہ اردو میں بات کرتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے چین کے ساتھ مذاکرات کرکے کے ۔ٹوحاصل کیا ، یہ چین کی وسیع القلبی تھی ۔میں نے صدر بننے کے بعد پہلا سرکاری دورہ چین کا کیا،شہید بی بی نے پچاس ہزارمیگاواٹ بجلی کے منصوبے دیے۔شہید بی بی نے ترقی کا مارشل پلان بنایا تھا مگر ان کی حکومت جلدی ختم کر دی گئی۔وسطی چین سے ہمارا ساحل سمندر قریب ہے، ہم دوراندیشی پر چلتے ہیں۔ہم نے چین ،سری لنکا، ترکی اور ایران کے ساتھ کرنسی سوئپ کا معاہدہ کیا۔کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کے کانوں کے قریب ہونا چاہیے۔انہوںنے کہا ساڑے تین لاکھ ایکڑزمین سمندر ڈکار چکا ہے،ساحلی پٹی پر ہم نے ذوالفقار آباد بنا کر اس کوواپس حاصل کرنا چاہا لیکن اس پر منفی پبلسٹی کی گئی۔اجلاس میں سی پیک منصوبے کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے سندھ سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی کو آگاہ کیا گیا ۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ چین سے ہماری لازوال دوستی ہے ۔اس نے ہر موقع پر ہمارا ساتھ دیا ہے ۔سی پیک منصوبہ پاک چین دوستی بے مثال علامت ہے ۔انہوںنے حکومت سندھ کو ہدایت کی کہ صوبے میں چینی زبان کو سکھانے کے لیے ادارے قائم کیے جائیں ۔اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ سی پیک کے بارے میں آج تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے ہیں ۔سی پیک منصوبے پر فخر کرتے ہیں اور آصف علی زرداری نے اس ترقی کے لیے کام کی ہدایت کی ہے ۔سی پیک میں سندھ کا نمایاں حصہ ہوگا ۔سی پیک پورے پاکستان کی بھلائی کا پروگرام ہے ۔یہ صرف پاکستان نہیں پورے خطے کا منصوبہ ہے ۔