بھارت میں بیویوں کے ستائے شوہروں کیلئے آشرم قائم

اورنگ آباد(خصوصی رپورٹ) بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اورنگ آباد شہر کے قریب میں ایک آشرم قائم کیا گیا ہے، جہاں بیویوں کی زیادتیوں کے شکار مظلوم شوہر رہائش پذیر ہیں۔ اس آشرم میں چار سو سے زائد افراد رہتے ہیں۔ آشرم میں خواتین کے لیے کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی داخلے کی کوئی اجازت ہے۔ آشرم کے ارکان کی خاص بات یہ ہے کہ تمام افراد اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں انجینئرز، وکلا اور پروفیسر حضرات بھی شامل ہیں۔ یہاں ہندو ہو یا مسلمان شوہر سب مل جل کر رہتے ہیں۔ ساڑھے چار سو ارکان میں پانچ مسلمان ہیں ،لیکن ان کا اتحاد دیکھنے لائق ہے۔ ان کے کرب نے انہیں ایک دوسرے کے اتنا قریب کر دیا ہے کہ حقیقی رشتے انھیں پھیکے نظر آنے لگے ہیں۔انڈین میڈیا کے مطابق یہاں رہنے والے ہر شوہر کی اپنی اپنی کہانی ہے تاہم یہ تمام افراد اپنی بیویوں کی زیادتیوں کی وجہ سے یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ آشرم کی صفائی، کھانا بنانا، برتن اور کپڑے دھونا یہاں تک کہ بستر بجھانا اور اٹھانا بھی آشرم کے ارکان خود ہی کرتے ہیں۔

13 پانڈ وزنی صحت مند بچے کا جنم

آسٹریلیا (خصوصی رپورٹ) آسٹریلیا کے شہر میلبورن کے مرسی ہسپتال میں کوریگن اور برائن کے ہاں 13 پانڈ وزنی بچے کی پیدائش ہوئی۔ زچہ و بچہ خیریت سے ہیں۔ عام طور پر نئے پیدا ہونے والے بچے کا وزن 7 پانڈ تک ہوتا ہے۔ جوڑے نے بچے کا نام برائن جونیئر رکھا۔بچے کی ماں نتاشیا کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش پر وہ انتہائی خوش ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے ہمیشہ سے ایک صحتمند بچے کی خواہش تھی۔ میں نے متعدد بار ایک صحت مند بچے کا خواب دیکھا۔نتاشیا کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں بچے کو دیکھ کر ششدر رہ گئی تھی حالانکہ بچے کی پیدائش بالکل نارمل طریقے سے ہوئی جبکہ بچے کے والد برائن لڈل کا کہنا تھا کہ آج صبح یہ سب کچھ ڈرانا لگ رہا تھا مگر اب سب ٹھیک ہے۔ میری اہلیہ اور بچہ دونوں خیریت سے ہیں۔

اداکارہ ‘ ماڈل کی دلچسپ باتیں

لاہور ( خصوصی رپورٹ) اداکارہ و ماڈل صوفیہ مرزا نے کہا ہے کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر قسمت مجھے شوبز کی دنیا میں لے آئی ، شروع میں کمرشل اور ماڈلنگ کی ، اس کے بعد ڈرامہ سیریل میں اداکاری کی پیشکش ہوئی اور پھر میں ٹی وی پر آگئی ، اب میں ہدایتکار شہزاد رفیق کی ایک فلم میں بھی مرکزی کردار ادا کر رہی ہوں ۔ انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ بالی ووڈ میں سٹار اداکار موجود ہیں ، ان سے مقابلے میں ہمارے پاس ہمایوں سعید ،فواد خان ، حمزہ علی عباسی ، عمران عباس ، دانش تیمور سمیت درجنوں اداکار موجود ہیں جو کسی طور پر بھی بھارتی سٹار سے کم نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کامیڈی کے میدان میں پاکستان بھارت سے آگے ہے یہاں پر بہترین سے بہترین کامیڈین موجود ہیں ۔صوفیہ مرزا نے کہا کہ میں ایک نجی ٹی وی چینل سے شو کی میزبانی بھی کر رہی ہوں جس میں مجھے شیخ رشید کا انٹرویو کرتے ہوئے سب سے زیادہ مزہ آیا جبکہ ایم کیو ایم کے لیڈر فاروق ستار اور پرویز الٰہی کا انٹرویو بھی یادگار ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اگر میرے سے کوئی خواہش پوچھی جائے تو میں پاکستان کی صدر بننا چاہوں گی ۔

سائنسدانوں کا حیرت انگیز کارنامہ

میڈرڈ(خصوصی رپورٹ) سپین میں سائنسدانوں اور انجینئروں کی ایک ٹیم نے ایسا تھری ڈی بایو پرنٹر تیار کرلیا ہے جس سے انسانی کھال کی نقل تک چھاپی جاسکتی ہے۔یہ تھری ڈی بایو پرنٹر ہسپانوی جامعات، تحقیقی مراکز اور نجی اداروں کا مشترکہ کارنامہ ہے جو متوقع طور پر جلد ہی مارکیٹ میں دستیاب بھی ہوجائے گا اور اس کی مدد سے کاسمیٹکس، کیمیکلز اور دواں کی جانچ پڑتال کے لیے انسانوں کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مزید بہتری اور پختگی کے بعد اسی بایو پرنٹر سے جلی ہوئی یا متاثرہ کھال والے مریضوں کے لیے ان ہی کے جسمانی خلیات سے تیار کردہ جیتی جاگتی مصنوعی کھال تک چھاپی جاسکے گی۔ ریسرچ جرنل بایو فیبریکیشن کے تازہ آن لائن شمارے میں اس ٹیم نے اپنے کارنامے کی مکمل تفصیلات شائع بھی کروادی ہیں۔ص

نیند کو ‘ذخیرہ’ کرنا ممکن

لاہور (خصوصی رپورٹ)آپ نے ذخیرہ اندوزی کے بارے میں تو سنا ہوگا، جس میں تاجر مختلف چیزوں کا سٹاک جمع کرلیتے ہیں، مگر ہوسکتا ہے، اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو کہ نیند کو بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔کم از کم کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں تو یہی دعوی سامنے آیا ہے۔کلارگی یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اگر آپ آئندہ چند دنوں کے لیے رات گئے تک جاگنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو کم نیند کے اثرات کو ٹالنے کے لیے نیند کا ذخیرہ کرسکتے ہیں۔تحقیق کے مطابق اس کے لیے کچھ عرصے کے لیے ہر رات دو گھنٹے کی اضافی نیند سونے کے معمولات میں تبدیلی سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ یہ حکمت عملی نیند کے شیڈول میں تبدیلی یا کم نیند کے باوجود جسمانی کارکردگی، دماغی افعال اور یاداشت وغیرہ کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔اس تحقیق کے لیے 12 نوجوانوں پر تجربات کیے گئے ،جو عام طور پر اچھی نیند لیتے تھے، مگر تجربے کے لیے انہیں 38 گھنٹے تک جگائے رکھا گیا۔اس تجربے سے چھ دن پہلے انہیں ہر رات دو گھنٹے اضافی نیند کی ہدایت کی گئی۔نتائج سے معلوم ہوا کہ اس حکمت عملی کے بعد انہیں 38 گھنٹے تک جگائے رکھنے کے باوجود ان کی جسمانی اور دماغی کارکردگی میں بہتری دیکھنے میں آئی۔دوسری جانب دیگر محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ابھی کچھ کہنا درست نہیں ہوگا کیونکہ یہ تصور پہلی بار سامنے آیا ہے اور ہمیں نہیں لگتا کہ اضافی نیند کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔

”ایک اور تحریک استحقاق لا رہے ہیں حکومتی وزراءاور ارکان نے متحدہ اپوزیشن پر حملہ کیا“ پی ٹی آئی کے اہم لیڈر کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ہاتھا پائی کے واقعہ پر کہا ہے کہ سپیکر ایاز صادق محتاط رہیں۔ ماضی میں مشرقی پاکستان کی ایک صوبائی اسمبلی میں بھی جھگڑا ہوا تھا تو کسی نے ڈپٹی سپیکر کے سر پر کرسی مار دی تھی، جس پر میرے خیال میں ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ میرے خیال میں دونوں پارٹیوں کے رہنماﺅں کو اسمبلی میں ذرہ بکتر پہن کر جانا چاہئے، کوئی بھی کسی کو بھی مار سکتا ہے۔ قانون خود ارکان اسمبلی کو تحفظ فراہم کرنا ہے، یہ لوگ ایوان میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت متحدہ عرب امارات میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ عرب امارات ہم سے ناراض ہے کیونکہ جب انہوں نے یمن جنگ میں پاک فوج کی مدد مانگی تھی تو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہونے کی بناءپر معذرت کر لی گئی تھی، اب وہ اپنی خفگی کا بدلہ اتار رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں اس وقت اداکارہ میرا موجود ہیں جو آئے روم کسی عرب شخصیت کے ساتھ اپنی تصاویر بھیجتی رہتی ہے، لگتا ہے کہ شاید وہ کسی عربی سے شادی کریں گی اگر شادی ہو گئی تو شاید پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات بہتر ہو جائیں۔ دوسرے قطری خط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتظار کرنا ہو گا کہ دوسرے خط کا کیا حشر ہوتا ہے، تیسرے خط کی بھی ضرورت پڑتی ہے یا نہیں، عدالت نے فیصلہ کرتا ہے کہ خط درست ہیں یا غلط۔ انہوں نے کہا کہ متعدد بار کہہ چکا ہوں کہ مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے لئے موضوع نہیں ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے راتوں رات انگریزی سیکھ لی ہے اور وہ دنیا کی اسمبلیوں میں اس زبان میں بات کر سکتے ہیں جو ان کو سمجھ آتی ہے تو پھر کر کے دکھائیں۔ سابق گورنر چودھری سرور سے ان کے دورِ اقتدار کے دوران کہا تھا کہ وہ کشمیر کمیٹی کی سربراہی کریں کیونکہ وہ دنیا میں بات کرنے کا بہتر طریقہ جانتے ہیں۔ وزیراعظم سے مل کر مشورہ دینے کو بھی تیار تھا کہ چوہدری سرور کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنایا جائے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت اسمبلی میں متفقہ اپوزیشن پر حملہ آور ہوئی، یہی رویہ رہا تو یہ ایوان نہیں چلا سکیں گے۔ عدالت میں آج پٹیشن دائر کروں گا کہ حکومتی وزراءاور ایم این ایز نے متفقہ اپوزیشن پر حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام اپوزیشن نے تحریک استحقاق پیش کرنے کی اجازت مانگی تھی، حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ حکومتی ارکان نے گالم گلوچ شروع کر دی، اپوزیشن بنچوں پر حملہ کیا اور خواتین سے بدتمیزی کی۔ حکومتی رویہ انتہائی شرمناک اور افسوسناک تھا۔ تحریک استحقاق پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی نے اسمبلی سے واک آﺅٹ کیا۔ یہ معاملہ صرف تحریک انصاف کا نہیں تمام اپوزیشن کا ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار، حواس باختہ ہو چکی۔ کیس کمزور ہونے کی وجہ سے نئے نئے قطری خط ایجاد کرنا پڑ رہے ہیں۔ کشمیری رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مثال ملک نے کہا ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر کشمیر کمیٹی یا فارم بنانا پڑے گا جو کشمیر کاز کے سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لے۔ مینڈیٹ دیا جائے کہ کشمیری قیادت عالمی سطح پر غیر جانبدارانہ کمیٹی کے سامنے اپنا کیس لڑ سکے۔ عالمی سطح پر غیر جانبدار کمیٹی بننے تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا۔ کشمیریوں کا پیغام ہے کہ آزادی کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی ساری قوم کا حق چھین کر یوم جمہوریہ منانے کا حق نہیں رکھتا۔ بھارت قراردادوں کے منافی مقبوصہ کشمیر میں ہندوﺅں کو آباد کئے جا رہا ہے۔ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے جبکہ جمہوری لیڈر شپ نظر بند ہے۔ عالمی سطح پر ایسے تھنک ٹینک بنیں جو کشمیری قیادت کا موقف سنیں۔

پانامہ کیس, قطری شہزادے کا ایک اور خط آگیا

اسلام آباد (این این آئی، اے این این) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز نے اضافی دستاویزات پر مشتمل جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لاجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت عظمیٰ میں اپنے موکلین کی جانب سے جواب جمع کرایا۔وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کی پروفائل شامل ہے جس میں قطری شہزادے کی کاروباری تفصیلات بھی فراہم کی گئیں جن کے مطابق شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔قطری شہزادے کا 22 دسمبر 2016 کو لکھا گیا ایک اور خط بھی دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے، جو پہلے خط کے بعد اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لکھا گیا۔خط کے مطابق قطر میں سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی جو اس وقت معمول کی بات تھی ۔خط میں کہا گیا کہ 2005 کے اختتام پر کارروبار کے ضمن میںمیاں محمد شریف کو 80 لاکھ ڈالر واجب الادا تھے، جنھیں ان کی خواہش پر حسین نواز کے نمائندے کو نیلسن اور نیسکول کے شیئرز کی صورت میں ادا کیا گیا۔دوسری جانب طارق شفیع کا بیان حلفی1980 میں دبئی فیکٹری کی فروخت اور اس کی متعلقہ دستاویزات، عزیزیہ اسٹیل مل کی خرید و فروخت سے متعلق دستاویزات کی کاپی بھی دستاویزات کا حصہ ہیں۔ سپریم کورٹ میں پاناما پیپرزسے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نوازاور حسین نواز لندن فلیٹس سے متعلق منی ٹریل جمع کرا دی ،دبئی فیکٹری کی 1980 میں فروخت، سعودی عرب میں عزیزیہ اسٹیل مل کی خریدو فروخت، میاں شریف کی التھانی فیملی کے ساتھ سرمایہ کاری کی سیٹلمنٹ، حدیبیہ پیپر ملزکی آڈیٹر رپورٹس، التوفیق ٹرسٹ کا قرضہ، نیسکول، نیلسن کمپنیوں کا کنٹرول سنبھالنے کی دستاویزات، ٹسٹی سروسز کارپوریشن کی خدمات حاصل کرنے کے خط کی کاپی تاریخوں سمیت جمع کرا ئی گئی، قطری شہزادے کا دوسرا خط اورطارق شفیع کا بیان حلفی بھی منی ٹریل تفصیلات کا حصہ ہےں ۔جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پاناما پیپرزسے متعلق درخواستوں کی17 ویں سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہاکہ آج مریم نواز کے زیر کفالت نہ ہونے پر دلائل دوں گا جبکہ مریم نواز نے اپنے انٹرویو میں الزامات کا جو جواب دیا ہے وہ عدالت کو فراہم کر دیا جائے گا۔ مریم نوازکےانٹرویو کامتن تیارہو کر آگیا ہے ،وہ جمع کرا رہا ہوں۔ شاہد حامد دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شادی شدہ خاتون والد کے زیر کفالت شمار نہیں ہوتی جبکہ زیر کفالت کی کوئی خاص تعریف نہیں اس میں بزرگ اور بیروزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے تاہم غیر شادی شدہ بیٹی کی ذرائع آمدن نہ ہو تو وہ زیر کفالت ہو گی۔شاہد حامد نے کہا کہ زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیرکفالت کی کیٹیگری ہے۔ شاہدحامد کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹیگری 2015میں شامل کی گئی۔جسٹس آصف کھوسہ نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ زیر کفالت میں دوافراد کاذکر ہونےکا مطلب کیا ہے اس پر شاہدحامد نے کہاکہ اس کا مطلب ایک وہ خود اور دوسرااس کی اہلیہ ہے۔جسٹس عظمت نے مریم نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کر سکتے ہیں اپنی اہلیہ بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں توکیا وہ بے نامی ہو گی۔ جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر مشترکہ خاندانی کاروبار ہو اور بچے بڑے ہو چکے ہوں تو کیا صورتحال ہو گی جبکہ مشترکہ کاروبار میں کیا تمام بچے زیر کفالت تصور ہوں گے۔ شاہد حامد کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ اس حوالے سے کوئی واضح تعریف نہیں کی جا سکتی بلکہ کیس ٹو کیس معاملہ ہوتا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ اگر کوئی شخص خاندان کا سربراہ ہو تو بچے اور ان کے بچے زیر کفالت ہو جائیں گے جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ کاروباری خاندان میں مضبوط آدمی ایک ہوتا ہے، وہ مضبوط شخص پورے خاندان کو چلاتا ہے۔ کیا ہم پورے خاندان کو بلا سکتے ہیں جو اس مضبوط شخص کے زیر کفالت ہیں ۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ بالغ بچے اپنا کارروبار ہونے کے باوجود خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتے ہیں، کیا وہ بھی زیر کفالت تصور ہوں گے، شاہد حامد کا جواب میں کہنا تھا کہ وہ جذباتی اور ثقافتی طور پر زیر کفالت ہوتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی جبکہ ڈکشنری کے مطابق مکمل طور دوسرے پر انحصار کرنے والا زیرکفالت ہوتا ہے اگر قانون واضح نہ ہو تو عام ڈکشنری کے معنی ہی استعمال کئے جائیں گے۔جسٹس کھوسہ نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ کیا مریم نواز کیلئے نواز شریف نے زمین انہی تاریخوں پر خریدی جن تاریخوں میں حسین نواز نے والد کو تحفے رقم دی، بظاہر لگتا ہے حسین نواز نے والد کو رقم تحفے میں دی پھر والد نے یہ زمین مریم نواز کیلئے خریدی۔ پھر بیٹی قانونی طور جائیداد کی مالک بننے کے بعد رقم باپ کو واپس کرتی ہیں۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ اگر جائیداد کی خریداری کی تاریخوں میں غلطی ہے تو یہ کلریکل کوتاہی ہو سکتی ہے، جبکہ کلیریکل کوتاہی کے کبھی بھی سنگین نتائج نہیں نکلتے۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ تاریخیں بہت اہم ہیں، ہم نے رقم کی منتقلی اور تحائف کی آمد اور جائیداد کی خریداری کی تاریخیں دیکھنی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا شاہد حامد سے استفسار کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ خود بتا دیں کہ تاریخوں میں غلطی کو کیسے دور کیا جائے۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ زمین کی خریداری کی تاریخ اکتوبر اور مارچ کے درمیان کی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ ہمیں رقم منتقلی کے ذرائع بتا دیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ وزیر اعظم کو اپنے بچوں کی جانب سے ملنے والے تحائف کا گوشوارہ کل جمع کروا دوں گا۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ بی ایم ڈبلیو کی فروخت پر اتنا منافع کیسے ہوا۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ 2006میں حسن نواز نے لندن میں بی ایم ڈبلیو گاڑی خریدی اور دبئی بھجوا دی، دو سال بعد انھوں نے گاڑی مریم نواز شریف کو تحفے میں دے دی، جبکہ مریم نواز نے 37 لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کر کے گاڑی حاصل کر لی 2011 میں دیوان موٹرز سے نئی گاڑی خریدی اور انھوں نے پرانی بی ایم ڈبلیو کی قیمت 2 کروڑ اسی لاکھ لگائی۔ شاہد حامد نے کہاکہ اگر مریم صفدر اِنکم ٹیکس ریٹرن فائل کر رہی ہیں تو زیر کفالت کا معاملہ کیسے ہو سکتا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ نے بتانا ہے کہ مریم نواز کے پاس تحفوں کے علاوہ بھی ذرائع آمدن ہیں۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ مریم نواز ہر سال گھریلو اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ جسٹس عظمت نے مریم نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ زیر کفالت کے معاملے کوآمدنی اور اخراجات کے پیمانے پر جانچا جا سکتا ہے ہم ساس کی طرح حساب کتاب نہیں مانگ رہے کہ پیسہ کدھر خرچ ہوا۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، جس طرح سندھ اسمبلی میں ہوتی ہے ۔ سماعت کے دوران حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے موکلین کی جانب سے جواب جمع کروایا۔ وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کی پروفائل شامل ہے، جس میں قطری شہزادے کی کاروباری تفصیلات بھی فراہم کی گئیں، جن کے مطابق شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ قطری شہزادے کا 22 دسمبر 2016 کو لکھا گیا ایک اور خط بھی دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے، شہزادہ جاسم کے مطابق انھوں نے اپنے پہلے خط پر اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں دوسرا خط تحریر کیا ۔خط کے متن کے مطابق میاں شریف نے 1980 میں ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کی، یہ سرمایہ کاری نقد کی صورت میں کی گئی، 2005 میں اس سرمایہ کاری کے ضمن میں ان پر شریف خاندان کے 80 لاکھ ڈالر واجب الادا تھے جنہیں نیلسن اور نیسکول کمپنی کے شیئرز کی صورت میں ادا کیا گیا، نیلسن اور نیسکول کے بیرئیر سرٹیفیکیٹ کی ادائیگی لندن کے کاروباری شخصیت وقار احمد کے ذریعے کی گئی۔ حسن نوازاورحسین نے اپنے جواب میں مزید بتایا کہ دبئی اسٹیل ملز بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی، میاں شریف کی درخواست پر الثانی خاندان نے جدہ اسٹیل ملز میں 45 لاکھ ڈالر لگائے، میاں شریف کی وفات کے بعد قطری شہزادے نے حسین نواز کو اس سرمایہ کاری کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور الثانی خاندان کا ایک نمائندہ شریف خاندان سے جدہ میں ملا جس کے بعد رقم کی واپسی کےلئے لندن کے انٹر بینک ریٹ کے مطابق ادائیگی پر اتفاق ہوا اس سلسلے میں ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی رقم دبئی اسٹیل ملز کی فروخت سے حاصل کی گئی، جس کے گواہ طارق شفیع ہیں۔ طارق شفیع کا بیان حلفی، 1980 میں دبئی فیکٹری کی فروخت اور اس کی متعلقہ دستاویزات، عزیزیہ اسٹیل مل کی خرید و فروخت سے متعلق دستاویزات کی کاپی، التوفیق کیس سے متعلق حدیبیہ پیپر ملز کے آڈٹ کی کاپیاں بھی وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات کا حصہ ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل نومبر 2016 میں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے سامنے شریف خاندان کے وکلا نے قطری شہزادے کا خط پیش کیا تھا۔ عدالت میں پیش کیے گئے قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ میرے والد اور نواز شریف کے والد کے درمیان طویل عرصے سے کاروباری تعلقات تھے، میرے بڑے بھائی شریف فیملی اور ہمارے کاروبار کے منتظم تھے۔ خط کے مطابق ‘1980میں نواز شریف کے والد نے قطر کی الثانی فیملی کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی، میرے خیال میں 12 ملین درہم نواز شریف کے والد نے ہمارے کاروبار میں لگائے، جو انھوں نے دبئی میں اپنے بزنس کو فروخت کرکے حاصل کیے تھے۔ حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے خط میں مزید کہا کہ لندن کے چارفلیٹس 16( 16اے ، 17اور 17 اے ایون فیلڈ ہاس، پارک لین ، لندن )دو آف شور کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ تھے، ان آف شور کمپنیوں کے شیئر سرٹیفکیٹ قطر میں موجود تھے، لندن کے فلیٹس قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے منافع سے خریدے گئے اور دونوں خاندانوں کے تعلقات کی بنا پر یہ فلیٹس شریف خاندان کے زیر استعمال تھے جس کا وہ کرایہ دیتے تھے۔ جس کے بعد قطری شہزادے کے خط پر تنقید کا آغاز ہوگیا اور یہ کہا گیا کہ شریف خاندان پاناما کیس سے بچنے کے لیے قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے۔ وزیراعظم کی نااہلی کے حوالے سے جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم نواز شریف نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔ جواب میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں خطاب کے دوران کوئی غلط بیانی نہیں کی اور نہ ہی بطور رکن اسمبلی اور وزیراعظم انھوں نے حلف کی خلاف ورزی کی۔ جواب میں مزید کہا گیا کہ لندن فلیٹس وزیراعظم کی ملکیت نہیں اور وزیراعظم ان چاروں فلیٹس میں سے کسی کے بھی بینیفشل مالک نہیں۔ کیس کی سماعت (آج) جمعہ تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ (آج) بھی مریم نواز کے وکیل کیس سے متعلق دلائل دینگے، جبکہ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف، وزیراعظم کے وکیل، پی ٹی آئی کے وکیل اور شیخ رشید کیس سے متعلق اپنے دلائل پہلے ہی مکمل کرچکے ہیں۔

زرداری نے امریکہ میں قیام بڑھا دیا, بڑی وجہ سامنے آگئی

اسلام آباد (آن لائن) سابق صدر آصف علی زرداری نے وطن واپسی کا فیصلہ فی الحال موخر کر دیا ۔ امریکہ میں قیام بڑھا کر امریکی حکام سے مزید ملاقاتیں کریں گے اور اپنا طبی معائنہ بھی کرائیں گے ۔ ذرائع کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے پاکستان واپسی کا فیصلہ موخر کر دیا ہے سابق صدر امریکہ میں قیام کے دوران نئی امریکی انتظامیہ اور حکام سے ملاقاتیں کریں گے ذرائع نے بتایا کہ سابق صدر چند دن تک اپنا طبی معائنہ بھی کرائیں گے ۔ واضح رہے کہ آصف علی زرداری سات فروری کو امریکہ سے وطن واپس آنا تھا ۔

نواز شریف کے دن گنے جا چکے, کپتان نے بڑا اعلان کردیا

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ نئے قطری خط میں منی ٹریل دینے سے ثابت ہو گیا کہ حکومت جعل سازی میں ملوث ہےقطری خط اصل ہے تو وزیر اعظم نے پہلے ذکر کیوں نہیں کیا نواز شریف اور ان کے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے اور ہمارے خلاف انتقامی کارروائیوں پر نواز شریف کو شرم آنی چاہئے اس کے دن گنے جا چکے ہیں بہت جلد نشان عبرت بنیں گے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سپریم کورٹ کے باہر پانامہ لیکس کے مقدمے کی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کیا ۔ چیئرمین تحریک انصاف نے کہاکہ شریف خاندان نے قوم کا پیسہ لوٹا ہے اور اب اپنی کرپشن کو چھپا رہے ہیں پانامہ لیکس کی دستاویزات میں انکشاف نہ ہوتا تو یہ ساری عمر شریف بن کر بیرون ملک اپنی جائیدادوں کا ذکر نہ کرتے لیکن اللہ نے ان کے جھوٹ اور فراڈ کو بے نقاب کر دیا اور سچ سب کے سامنے آگیا کہ ان کی بیرون ملک جائیدادین ہیں جبکہ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور صاحبزادے حسین نواز کی ریکارڈنگ ریکارڈ پر ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہماری کوئی پراپرٹی ملک سے باہر نہیں ہے نواز شریف کے بچون کے جھوٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ غیر ممالک میں اپنی جائیدادوں کو صرف اس لئے چھپا رہے ہیں کہ وہ غریب عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے بنائی گئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس میں انکشاف ہوا شریف خاندان کی چوری پکڑی گئی اور ہمارےسمیت جبدیگر سیاسی جماعتوں نے نواز شریف سے جواب مانگا تو وہ ایوان میں جواب دینے کو تیار نہیں تھے اور جب جواب دیا تو تسلیم کیا کہ ہمارے پاس بیرون ملکمیں موجود جائیدادوں کی تمام دستاویزات موجود ہیں لیکن جب اس کی تسلیم مانگی گئی تو جواب دینے سے راہ فرار اختیار کر گئے جس کے بعد ہم مجبوراً عدالت عظمی میں آئے اور اب یہاں ان سے جواب مانگ رہے ہیں کہ آپ کے بچوں نے بیرون ممالک جائیداد کی موجودگی سے انکار کیا اور پانامہ لیکس کی دستاویزات میں ان کے نام کمپنیاں نکل آئیں یہ کیسے بنیں ؟پھر جب ایوان مین دستاویزات کی موجودگی کا نواز شریف نے اعتراف کیا تو وہ ثبو ت اور دستاویزات عدالت میں اس لئے جمع نہیں کرائی گئیں کہ ان کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں تھے اب عدالتی کارروائی جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے ہمارے وکلاءدلائل دے کر اعتراضات اور سوالات اٹھا رہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ قطری شہزادے کا دوسرا خط سامنے آ گیا ہے جس میں ان کی صفائی پیش کی گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نو ماہ قبل جب پانامہ لیکس انکشافات ہوئے تو ایوان میں جواب مانگنے پر دستاویزات کیوں نہیں دی گئیں ؟دراصل ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں لیکن عدالتی کارروائی کو دیکھتے ہوئے متعلقہ اعتراضات پر دستاویزات بنائی جا رہی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ سب جعلی ہیں کیونکہ اگر یہ دستاویزات اور قطری کا یہ خط اصلی ہے تو پھر نو ماہ سے اسے سامنے لا کر عدالت اور ایوان میں پیش نہیں کیا گیا ۔عمران خان نے کہا کہ نواز شریف درحقیقت جمہوری آمر ہیں اس لئے اداروں کو استعمال کر کے اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور حق کی پاداش میں ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہے ہیں ، اگر قطری خط اصل ہے تو آٹھ ماہ پہلے تین تقریروں میں ذکر کیوں نہیں کیا ، قطری خط میں منی ٹریل کیش میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج قطری لیٹر مارک ٹو آ گیا ہے جس میں منی ٹریل کیش میں ہے ، خط اصل ہے تو آٹھ ماہ پہلے تین تقریروں میں ذکر کیوں نہیں کیا ، کپتان کا کہنا ہے مشرف کی آمریت نواز شریف کی نام نہاد جمہوریت میں کیا فرق ہے ، انتقامی کارروائی جمہوریت میں نہیں آمریت میں ہوتی ہے۔ کپتان نے کہا خواجہ آصف نے اسمبلی میں کہا لوگ پاناما کو بھول جائیں گے تو ہم سپریم کورٹ آئے لیکن قوم جانتی ہے کہ قطری شہزادے کے خط اور شریف خاندان کے موقف کی اصلیت اور حیثیت کیا ہے عوام سمجھدار ہیں وہ بہتر طور جانتے ہیں کہ اس بہتی گنگا میں ننگے کون ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے نواز شریف نے قوم ‘ عوام اور عدالت میں جھوٹ بول کر اپنا خود ہی مذاق اڑایا ہے اور قومی اداروں کو جعلی دستاویزات بنانے کے لئے استعمال کرنے سے دن بدن ان کے کردار کی اصلیت سامنے آ رہی ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے لئے ایف بی ار جیسے اداروں کو استعمال کر کے پوری قوم کو ذلیل و خوار کر سکتے ہےں، یہ اس ملک سے کتنے مخلص ہیں اس بات کا اندازہ تو اس آمر سے ہو جاتا ہے کہ ڈیٹ مارچ میں ہوئی تھی اور کاغذات پر دستخط ایک ماہ پہلے ہی فروری میں ہی کر دیئے گئے تھے ۔ صحافی کے ایک سوال کے جواب میںعمران خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف جمہوری آمر ہیں انہوں نے 1998 میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ پر اپنی ذاتی مفادات کے لئے حملہ بھی کرایا تھا اس لئے مجھ سمیت پوری قوم اور سیاسی جماعتوں نے مشرف کے مارشل لاءپر مٹھائی بانٹی تھی کیونکہ ان کی آمریت اور مشرف کی آمریت میں تو کوئی فرق نہیں اس نے بھی ادارے تباہ کئے اور یہ بھی ذاتی مفادات کے لئے اداروں کو تباہ کر رہے ہیں لیکن قوم اصلیت جانتی ہے اور یہ لاکھ کوشش کریں جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کر سکیں گے بلکہ اپنے جھوٹ کے گرداب میں پھنس کر نشان عبرت بنیں گے وہ دن دور نہیں جب سپریم کورٹ کے فیصلے سے عوام کو انصاف کا قومی حق ملے گا۔ہمیں بھی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ مجھ پر بھی مقدمات درج ہیں۔میں اشتہاری ہوں اور جہانگیر پر بھی توپ چل رہی ہے ۔شیخ کو لال حویلی سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لندن فلیٹس بارے وزیراعظم کا اہم بیان سامنے آگیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، آئی این پی) وزیرا عظم نوازشریف نے جماعت اسلامی کی درخواست پرسپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کر ا دیا ۔ وزیر اعظم نوازشریف نے جماعت اسلامی کی طرف سے سپریم کورٹ میں نااہلی کیلئے دائر درخواست پر تحریری جواب جمع کرادیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کوئی غلط بیانی نہیں کی اور نہ ہی اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔ وزیرا عظم نے اپنے تحریری جواب میں دعوی کیا ہے کہ وہ لندن میں چاروں فلیٹس میں سے کسی ایک کے بھی بینیفشل مالک نہیں ہیں ۔میں نے اپنے امدنی کے گوشواروں اور انکم ٹیکس ریٹرنز میں پوری تفصیلات درج کی ہیں اور آئین کے آرٹیکل 248کے تحت استثنی کا مطالبہ نہیں کیا۔ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ ہر رکن پارلیمنٹ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کا حق ہے ۔ وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے حوالے سے جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیا۔