لاہور(خصوصی رپورٹ)پنجاب اسمبلی نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013ءمیں 3 مزید ترامیم اور 2 بل منظور کر لئے۔ ایوان کے مسودہ ترمیم ڈرگر پنجاب 2017ءکی بھی منظوری دیدی۔ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں ترامیم کے مطابق عام انتخابات کے موقع پر بلدیاتی ادارے اب بدستور کام کرتے رہیں گے۔ ان کے خاتمے کی شق ختم کر دی گئی جبکہ چیئرمین یونین کونسل کے چیئرمین یا میئر، وائس چیئرمین منتخب ہونے پر ایک نشست کے خاتمے والی دوہری رکنیت پر پابندی کی شق بھی ختم کر دی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے قانون نمبر 18 کی دفعہ 28 اور 126 کو حذف کردیا۔ قانون نمبر 18 کی دفعہ 68 میں ترمیم کر کے میٹروپولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشن اور ضلع کونسل کے اجلاس کی صدارت کی ذمہ داری ڈپٹی میئر اور وائس چیئرمینوں کو سونپ دی گئی ہے۔ اگر ڈپٹی میئرز اور وائس چیئرمینوں کی تعداد زیادہ ہو تو وائس چیئرمین یا ڈپٹی میئر 6-6ماہ کی مدت کیلئے اجلاس کی صدارت کا فریضہ انجام دیں گے۔ سب سے عمر رسیدہ ڈپٹی میئر یا وائس چیئرمین کو ذمہ داری سب سے پہلے سونپی جائے گی۔ میونسپل کمیٹیوں اور یونین کونسل کے اجلاس کی صدارت بھی وائس چیئرمین کیا کرینگے۔ وائس چیئرمین کی عدم موجودگی میں حاضر ارکان اس مقصد کیلئے کسی ساتھی کو منتخب کرینگے۔ وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا کہ دوہری رکنیت پر پابندی اور نشست خالی کرنے کی شق حذف کر دی گئی ہے جس کے بعد اب چیئرمین یونین کونسل کے ضلع کونسل و میٹروپولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشن کا میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین وائس چیئرمین بننے کی صورت میں ایک سیٹ خالی کرنے والا قانون اب ختم کیا جا رہا ہے۔ عام انتخابات کے موقع پر بلدیاتی اداروں کے خاتمے کی شق سے انہیں ایک سال بعد ہی گھر بھیجا جا سکتا تھا۔ بلدیاتی ادارے 2 جنوری 2017ءکو قائم ہوئے اور اب 2 جنوری 2022ءتک قائم رہیں گے۔ تحریک انصاف کے میاں اسلم اقبال نے ان ترامیم کے حوالے سے میٹنگ میں ان کے ساتھ شرکت کی تھی اور یہ طے ہوا تھا کہ یہ ترمیم عوامی مفاد میں ہے لہٰذا ان ترامیم کو سٹینڈنگ کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ علاوازیں پنجاب لینڈ ریکارڈز اتھارٹی بل 2016ءاور یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور بل 2016 ءکثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن کی طرف سے تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناءنے کہا کہ اس اتھارٹی کے قیام سے پٹواری کلچر کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی ڈ اکٹر مراد راس نے ہوم اکنامکس کالج کو یونیورسٹی بنانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس کالج کو یونیورسٹی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے فیسیں بڑھ جائیں گی۔ دراصل یہ اقدام صرف ایک خاتون کو خوش کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ رانا ثنا ءاللہ نے کہا کہ ڈاکٹر مراد راس کی طرف سے کالج کو یونیورسٹی بنانے کی مخالفت اور ایک خاتون کے بارے میں نازیبا کلمات پر افسوس ہوا ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ہے اور یونیورسٹیاں بننی چاہئیں۔ وزیر قانون پنجاب نے اسمبلی کے فلور پر تسلیم کیا کہ ادویات میں بہت بڑے مافیا ہیں، اگر مریض کو دوائی ہی اصلی نہیں ملے گی تو پھر کیا رہ جاتا ہے۔ ڈرگ ایکٹ میںترمیم کے بعد غیرقانونی طور پر، لائسنس کے بغیر ادویہ سازی، جعلی ادویات بنانے، ملاوٹ کرنے والوں کیخلاف کارروائی موثر بنانے کیلئے مانیٹرنگ ٹیمیں بنائی جائیں گی اور اس جرم کے ارتکاب و اعانت کرنیوالوں کی سزا پانچ سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگی اور اس کے لئے استعمال ہونے والی پراپرٹی بھی قبضے میں لی جا سکے گی۔ ایوان کو بتایا گیا کہ پنجاب کا کل رقبہ 3 کروڑ 9 لاکھ 78 ہزار 518 ایکڑ ہے جس میں سے 38 لاکھ 82 ہزار 615 ایکڑ رقبہ اس وقت زیرکاشت نہیں مگر اسے قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے جبکہ پنجاب کے کل قابل کاشت رقبے کا تقریباً 25 فیصد یعنی 71لاکھ 77 ہزار 667 ایکڑ ناقابل کاشت ہے۔ گزشتہ 5 برسوں میں ایک لاکھ 47 ہزار 670 ایکڑ رقبے کو قابل کاشت بنایا جا چکا ہے اور رواں مالی سال میں مزید 50 ہزار ایکڑ زمین کو قابل کاشت بنایا جائے گا۔ قبل ازیں اجلاس کو شروع ہوئے 20 منٹ ہی گزرے تھے کہ رکن اسمبلی احسن ریاض فتیانہ نے کورم کی نشاندہی کر دی اور پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کے باوجود کورم پورا نہ ہو سکا جس پر سپیکر نے پندرہ منٹ کا وقفہ کر دیا۔ دوبارہ آغاز ہونے پر بھی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے پر مزید پندرہ منٹ کا وقفہ کر دیا گیا تاہم اس دوران حکومت نے تگ و دو کر کے کورم کیلئے مطلوبہ تعداد پوری کر لی۔