تازہ تر ین

”پاکستان کی مختلف حکومتوں کا افغانستان سے رویہ معذرت خوانہ رہا افغان سرحد کو سختی سے سیل کرنا ہوگا“ نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کےساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزبہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری صورتحال کا اس وقت ہی اندازہ ہو گیا تھا جب آپریشن ضرب عضب بارے مختلف قیاس آرائیاں ہونے لگیں اور کہا جانے لگا کہ اب دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو پکڑنے کی ضرورت نہیں رہی اور گرفتار افراد کی دھڑا دھڑ ضمانتیں ہونے لگیں۔ جن افراد پر سینکڑوں افراد کے قتل کے الزامات تھے وہ شہر کے میئر اور دیگر عوامی عہدوں پر طمطراق سے براجمان ہوگئے۔ پانامہ کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تاہم اب یہ سارا کیس بیان بازی ہی لگتا ہے روزانہ ایک مجلس ہوتی ہے سوالات پوچھے جاتے ہیں پھر عدالت سے باہر کچھ تصاویر ہوتی ہیں جس کی خبریں بن جاتی ہیں۔ کیا پاکستان کا صف اول کا کوئی ایک وکیل بھی اتنے اہم مقدمہ میں حکومت کےخلاف پیش ہوا، صرف بی اور سی کلاس کے وکیل کیس لڑ رہے ہیں۔ لیگی پالیسی سازوں کا کمال سمجھتا ہوں جنہوں نے بڑی کامیابی سے کیس سے جان چھڑا کر عمران خان کو سپریم کورٹ کے گیٹ تک محدود کر دیا ہے اور پورے ملک کو پرسکون کر دیا ہے۔ عام عوام سپریم کورٹ کے احترام میں خاموش ہیں تاہم میں جتنے لوگوں سے روزانہ ملتا ہوں ان میں 90 فیصد سمجھتے ہیں کہ پانامہ کیس سے کچھ نہیں نکلے گا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ پاکستان کی مختلف ادوار میں جاری سب حکومتوں کا افغانستان بارے رویہ معذرت خواہانہ، بزدلی اور کمزوری پر مبنی رہا۔ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں مل سکتی کہ افغانستان جیسا ملک جہاں ضرورت زندگی کی ہر چیز پاکستان سے جاتی ہے اور پھر بھی اس کا انگوٹھا ہر وقت ہماری شہہ رگ پر رہتا ہے۔ ہماری کئی سیاسی جماعتیں افغانستان سے ملی ہوئی ہیں اور فوج چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتی۔ افغان بارڈر سے 24 گھنٹے سمگلنگ جاری رہتی ہے۔ پشاور سے ہر طرح کا ہیوی و لائٹ اسلحہ بآسانی خریدا اور ملک میں کہیں بھی وصول کیا جا سکتا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ جب دو قومی نظریہ بھلا دیا جائے گا اور زبان اور نسل کی بنیاد پر صوبوں کی بات ہو گی تو اس میں سے اچکزئی اور اسفند یار جیسے کردار ہی نکلیں گے جو کھاتے پیتے تو پاکستان کا ہیں اقتدار کے مزے تو یہاں لوٹتے ہیں لیکن ہمدریاں افغانستان سے رکھتے ہیں۔ قائداعظم پاکستان کو اسلام کے مطابق فلاحی سیاسی ریاست بنانا چاہتے تھے، بانی پاکستان نے بارہا اپنی تقاریر میں کہا کہ پاکستان پاپائیت یا مولویوں کا ملک نہیں ہوگا۔ ضیاالحق آیا تو اس نے نام نہاد اسلامائزیشن کر کے امریکہ سے ڈالر لئے، سائیکل پر پھرنے والے مولویوں کو پجارو پر بٹھایا اور انہیں اربوں ڈالر بھی دیدئیے۔ موجودہ صورتحال متقاضی ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کو سختی سے سیل کر دیا جائے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان مشتاق غنی نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب نے حقیقی معنوں میں دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ اب اکا دکا واقعات بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مترادف ہے۔ دہشتگرد پسپائی اختیار کر چکے ہیں۔ تحریک انصاف فاٹا کو کے پی کے کا حصہ بنانا چاہتی ہے تاکہ وہاں بھی پولیس کی رسائی ہو، ادارے وہاں کام کریں، علاقہ غیر کا لیبل ہٹایا جائے اور قانون سب کےلئے برابر ہو۔ اس سے دہشتگردی کے کنٹرول میں بھی مدد ملے گی۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں دہشتگردوں کے ٹھکانے ہیں وہاں بھی آپریشن کیا جانا ضروری ہے۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی یہ دہشتگردی کی کڑیاں افغانستان سے ملتی ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان سے فاٹا تک رسائی کوئی مشکل نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کے باعث آج بھارت افغانستان میں بیٹھ کر ہمارے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ اچکزئی جیسے عناصر یہاں پل رہے ہیں جن کا پورا خاندان اقتدار کے مزے بھی لے رہا ہے اور ہمدردی پاکستان کے بجائے افغانستان سے رکھتا ہے۔ ملک بھر میں جہاںجہاں بھی دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں انہیں ختم کرنا ہوگا پھر ہی پاکستان صحیح معنوں میں مضبوط ملک بن سکے گا۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا کہ حکمران خاندان ابھی تک منی ٹریل نہیں دے سکا کیونکہ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ پانامہ کیس کا ا لزام تحریک انصاف نے نہیں آئی سی آئی جے نے لگایا تھا۔ آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے دن کیس شروع ہوا تھا۔ قانون کے مطابق پبلک آفس ہولڈر کے خاندان کی جائیداد بارے اسی سے سوال پوچھا جاتا ہے۔ سینئر تجزیہ کار مکرم خان نے کہا کہ دہشتگردی کے تسلسل میں وقفہ آنے کی کئی وجوہات ہیں۔ دہشتگردی کی نئی لہر غیر متوقع نہیں ہے۔ امریکہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کو اس وقت گھیرے میں لئے ہوئے ہیں اور مذموم مقاصد کےلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔ افغانستان میں درپردہ بھارت کی حکومت ہے اور اس کی ایجنسیاں بھی ”را“ کے کنٹرول میں ہیں۔ پاکستان کو مطلوب مولانا فضل اللہ و دیگر دہشتگرد رہنما آج بھی افغانستان میں سکون سے بیٹھے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر حکومت جہاں سے چلی تھی آج بھی وہیں کھڑی ہے کیونکہ اس کے مخالف تو خود حکومت کی صفوں میں بیٹھے ہیں۔ افغانستان سے دراندازی اس وقت تک نہیں رک سکتی جب تک بارڈر کو مکمل طور پر باڑ لگا کر بند نہ کیا جائے۔ جب بھی افغان بارڈر بند کرنے کی بات ہو تو یہاں اچکزئی، فضل الرحمان، اسفندیار جیسے لوگ مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ اچکزئی اور اسفند یار نے لاکھوں افغانوں کے شناختی کارڈ جاری کرا لئے ہیں جس کے باعث بلوچستان کی ڈیموگرافی تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ ملک کے اندرونی حالات انتہائی خراب ہو چکے اور کوئی سیاسی جماعت اس پر سوچنے کو تیار نہیں ہے۔ سینئر تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے کہا کہ حکومت پاکستان افغانستان سے احتجاج ضرور کرے تاہم ہمیں اصل توجہ اپنی کمزوریاں دور کرنے پر دینا ہوگی۔ اداروں کو مضبوط بنانا اور آپس میں ربط پیدا کرنا ہوگا۔ کریمنل جسٹس سسٹم کو بہتر بنانا ہوگا۔ ہمیںماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain