لاہور (مانٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے لعل شہباز قلندر مزار پر دھماکے پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک کراچی رینجرز، صوبائی حکومت اور میئر کراچی تینوں کے درمیان یکسوئی و اشتراک نہیں ہوتا اور رینجرز کے احتیارات کا فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ اندرون سندھ ہو یا کراچی کے علاقے، ایک بار پھر فتور مچنے والا ہے۔ بہت سے ایسے واقعات سامنے آنے والے ہیں جس میں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ سابق آرمی چیف کے دور کی حکمت عملی درست تھی کہ جب تک سہولت کاروں کو نہیں پکڑیں گے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ آرمی چیف قمر باجوہ نے درست نشاندہی کی افغانستان میں دہشتگرد ایک بار پھر منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کا غیر مستحکم ہونا ہے۔ وہاں نام نہاد و لنگڑی لولی جمہوریت ہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ غیر مستحکم، و غیر یقینی افغان حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 30 فیصد سے زیادہ علاقوں میں اس کا عمل دخل نہیں، 70 فیصد علاقے میں آج بھی طالبان کا دائرہ اختیار ہے۔ افغان سول حکومت پہلے 2 حصووں میں تقسیم ہے، تیسرا حصہ امریکہ کے پاس اور چوتھا حصہ سفارتخانوں و دہشتگردوں کے بہت سارے ایجنٹوں پر مشتمل بھارت کی وہ فوج ہے جو آج افغانستان میں کارفرما ہے۔ اس 4 عملی حکومت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان، امریکہ اور افغان حکومت کو امن کے قیام کے لئے مشترکہ کمانڈ اور م محافظ بنانا پڑے گا۔ ورنہ افغانستان دہشتگردوں کی آمد و رفت کے علاوہ ان کی آماجگاہ ہی رہے گا اور پاکستان کے لئے ہمیشہ خطرہ رہے گا۔ پانامہ کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت کو شروع میں ہی ایک تاریخ مقرر کر دینی چاہئے تھی کہ جس نے جو جمع کروانا ہے کروا دے، بعد میں کوئی کچھ جمع نہیں کروا سکے گا۔ عدالت کی یہ بات درست ہے کہ اگر اسی طرح نئی دستاویزات آتی رہیں تو کیس طول پکڑتا جائے گا۔ سپریم کورٹ کو آحر کار کوئی تاریخ مقرر کرنا پڑے گی کہ اس وقت تک جس نے جو کہنا ہے کہہ دے۔ جب یہ کیس شروع ہوا تھا تو کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گا جبکہ میرا اندازہ یہ تھا کہ شاید یہ چند ماہ تو کیا چند سالوں میں بھی ختم نہیں ہو گا۔ عدالتی نظام میں ایسی کمی و کوتاہی موجود ہے کہ بڑی آسانی سے وقت لیا جا سکتا ہے۔ ملزم پارٹی جتنی بااثر وبااختیار ہو گی اتنا ہی عدالت کے دائرہ کار پر اثر پڑتا ہے۔ آصف زرداری اور شریف برادران دونوں خاندانوں کے مختلف ادوار میں جو کیسز رہے ہیں ان کی کارروائی دیکھیں تو محسوس ہو گا موجودہ صورتحال ماضی میں بھی رہی ہے۔ لیکن کسی بھی ملک میں سپریم کورٹ ایسے معاملے کو جو 2 بڑی حکمران جماعتوں کے درمیان ہو اور کسی ایک حکمران جماعت کے حوالے سے فیصلہ کرنا مقصود ہو تو اسے صدیوں تک نہیں لٹکایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے اگر 20 نکات میں سے دیکھیں کہ کتنے نکات پر عمل ہوا تو نتیجہ شرمندگی نکلے گا۔ نیشنل ایکشن پلان پر مولانا فضل الرحمان کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب یہ تشکیل دیا گیا تھا تو تمام سیاسی جماعتیں وہاں موجود تطیں اس وقت کھل کر مخالفت نہیں کی۔ اسلام آباد کے بہت سارے لوگوں کو اچھے دماغی امراض کے ڈاکٹروں کو دکھانے کی ضرورت ہے جو چن کر ایسے لوگوں کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا دیتے ہیں جنہوں نے سرحدوں، ملک کے قیام کو ہی دل سے تسلیم نہیں کیا اور بھارت کے ساتھ دوستیاں نبھاتےے ہیں۔ مولانا فصل الرحمن ملک کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا ان کے ارادوں سے واقف ہو چکی ہے۔ جو امریکہ خود تسلیم کر چکا تھا کہ اسرائیل و فلسطین کی الگ الگ بستیاں آباد ہونی چاہئیں اور دونوں قوموں کو رہائش اختیار کرنے کا حق ہونا چاہئے، اس معاہدے کی ٹرمپ نے تردید کر کے اور اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل کو ڈانٹ پلا کر ثابت کر دیا وہ 15,10 سال جو وعدہ چلا آ رہا تھا اس سے فرار ہو چکے ہیں۔ چند ماہ میں معلوم ہو جائے گا کہ ٹرمپ اور کس کس وعدے سےے فرار ہو چکے ہیں۔ حکومتیں اسی طرح سے ٹولتی ہیں۔ جب حکومت بہت بڑی ہو جاتی ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس پر باہر سے حملہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ امریکہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ بحیثیت ایک سپر پاور کے امریکہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنی قبر کھود رہا ہے اگر ٹرمپ سے اس کی جان نہ چھوٹی۔ امریکی سوسائٹی کے مختلف حصے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، یہ لڑائی گلی و کوچوں تک پہنچے گی۔ چینل۵ کے اینکر پرسن منظور ملک نے کہا ہے کہ اعزاز چودھری کا سفارتی کردار 36 سالوں پر مشتمل ہے۔ اچھے ڈپلومیٹ ہیں، حکومت نے انہیں پاک امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے کا ٹاسک دیا ہے۔ ڈپلو میسی کے شعبے میں وہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور محتلف اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جب وہ ڈائریکٹر جنرل ساﺅتھ ایشیا تھے تو انہوں نے پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی سرد مہری جاری ہے، تعلقات بھی تواتر کا شکار ہیں اور اعزاز چودھری کو یہ کیس امریکہ میں اجاگر کرنا ہے۔