لاہور (خصوصی رپورٹ) لاہور کی فضا سوگوار ہے، شادی کارڈ تقسیم کرنے والے محمد بلال اور اپنی شادی کی شاپنگ کے لئے اپنے بھائی کے ساتھ مال روڈ پر آنے والی فاطمہ شیر‘ دِل پولیس افسران کیپٹن (ر) احمد مبین اور زاہد اشرف گوندل کی یادیں رلانے کے لئے کافی ہیں۔ آج کل لوگ عموماً کہتے نظر آتے ہیں پریشانیوں اور مصیبتوں نے عمر ہی گھٹا دی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآن عظیم الشان میں واضح ارشاد ہے۔ ہر ایک کے لئے موت کا ایک وقت مقرر ہے‘ جب وہ آ جائے تو نہ تو ایک گھڑی دیر ہو سکتی ہے اور نہ جلدی۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے موجودہ حالات میں زندہ رہنا مشکل ہے اور مرنا اس سے بھی مشکل ہو گیا ہے۔ چند سال پہلے تک اللہ کو پیارے ہونے والے بزرگوں کے حوالے سے سنا جاتا تھا انہوں نے فوت ہونے سے پہلے اپنے کفن دفن کا اہتمام کرنے کے لئے ایک مخصوص رقم جمع کر رکھی تھی اور اس کی اطلاع اپنی بیگم اگر زندہ ہو تو ورنہ بہو یا بیٹے کو دے رکھی ہوتی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میرا کفن دفن ان پیسوں سے کرنا۔ دنیاوی لحاظ سے بزرگوں کی طرف سے مرنے کے بعد کفن دفن کے انتظام کے لئے رقم مخصوص کرنے کو معیوب کہا جا سکتا ہے۔ بعض ایسے بزرگ اور خاندان بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے اپنا علیحدہ قبرستان بنا رکھا ہے یا کم از کم اپنے دادا، والد یا والدہ کے ساتھ اپنی قبر کے لئے بھی جگہ خرید فرما رکھی ہے۔ میں ذاتی طور پر ان افراد کے بڑا خلاف تھا جنہوں نے لاہور کے مختلف قبرستانوں میں ایڈوانس ہی اپنی قبروں کے لئے جگہ مخصوص کر کے کتبے لگا لئے ہیں۔ ان زندہ افراد نے مرنے والوں سے محبت یا عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے قبروں کی زمین خریدی ہے یا تعلقات کا استعمال کیا ہے‘ اب ان کا فیصلہ درست لگنے لگا ہے۔ ڈی ایچ اے لاہور جو پورے لاہور کے برابر آبادی بننے جا رہی ہے اس میں ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کے علاوہ مردوں کو دفن کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ڈی ایچ اے میں رہنے والوں کا کوئی مہمان یا رشتے دار بھی اگر فوت ہو جائے‘ اس کو بھی ڈی ایچ اے میں دفن نہیں کیا جا سکے گا۔ ڈی ایچ اے کی طرف سے جاری کیا گیا سرکلر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا اب مرنا بھی آسان نہیں رہا۔ میانی صاحب قبرستان لاہور میں قبر کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مخصوص لابی کی اجارہ داری ہے‘ عام افراد کے لئے ہاﺅس فل کا بورڈ لگا دیا گیا ہے۔ کریم بلاک، علامہ اقبال ٹاﺅن کا قبرستان بہت بڑا تھا۔ اس کے باہر بھی بڑا سا بورڈ لگا دیا گیا ”حضرات قبرستان میں جگہ نہیں ہے اپنے مرنے والوں کو کسی اور قبرستان میں لے جائیں۔ “ چند روز پہلے ایک صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے، ان کی رہائش اب فیصل ٹاﺅن میں ہے‘ ان کے بیشتر رشتے داروں کی قبریں مڑیاں قبرستان ماڈل ٹاﺅن میں موجود ہیں۔اہل خانہ کی خواہش تھی ان کے والد محترم کی قبر کے لئے جگہ حاصل کی جائے۔ ان کے صاحبزادے وہاں قبر کے حصول کے لئے گئے تو انتظامیہ نے ایک لاکھ روپے جمع کرانے کا حکم دیا۔ جب انہوں نے بتایا ہم اتنے امیر نہیں ہیں تو20ہزار رعایت کر کے80ہزار جمع کرانے کا کہا گیا‘ یہ بالکل سو فیصد سچی بات ہے۔ نشتر بلاک قبرستان علامہ اقبال ٹاﺅن جہاں آہستہ آہستہ قبروں کو صاف کر کے کوٹھیاں تعمیر ہو رہی ہیں‘ انتظامیہ سے 35ہزار میں معاملات طے پا گئے اور وہاں قبر کی جگہ مل گئی۔سمن آباد میں موجود قبرستان کے حوالے سے معلوم ہوا ہے وہاں بھی قبر کی قیمت60ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔ لاہور کے بڑے علاقے ایسے ہیں یا لاکھوں نفوس کی آبادی موجود ہے، مگر قبرستان نہیں ہے۔ ایل ڈی اے کے حوالے سے کہا جاتا ہے وہ اپنی سکیموں میں رہائشیوں کی تمام تر سہولتوں کا خیال کرتا ہے ۔ پارکس، قبرستان، کمیونٹی سنٹر اور دیگر اداروں کے لئے جگہ چھوڑتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ملحقہ مصطفی ٹاﺅن کی سکیم زندہ مثال ہے کہ وہاں ایل ڈی اے نے قبرستان کے لئے جگہ نہیں دی اور وہ ایل ڈی اے کے علاوہ پرائیویٹ سکیم ہنجروال، اتفاق ٹاﺅن، مرغزار کالونی، رانا ٹاﺅن اور ان سے ملحقہ درجنوں آبادیوں میں قبرستان نہیں ہے۔ قبرستان کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے۔ سلمان صوفی صاحب کی باتیں میں ٹی وی ٹاک شو میں سن رہا تھا، ہم ماڈل تھانے ، ماڈل قبرستان بنا رہے ہیں۔ جنابِ والا ماڈل قبرستان میں دفن ہونا تو قسمت والوں کو نصیب ہو گا۔ آپ عوام کو فوت ہونے کے بعد چھ گز کی جگہ کا ہر سکیم میں انتظام کرنے کا حکم دیں۔ لاہور میں درجنوں پرائیویٹ سکیموں میں قبرستان کی جگہ پر کمرشل پلاٹ بنا دیئے گئے ہیں اور درجنوں پرائیویٹ رہائشی سکیموں میں پلاٹ بنا کر فروخت کر دیئے گئے ہیں۔ سکیم سرکاری ہو یا پرائیویٹ اس کا انتظام اور کنٹرول تو ایل ڈی اے کے پاس ہوتا ہے‘ اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ تیزی سے ختم ہونے والے قبرستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے قبرستان میانی صاحب ٹو کے نام سے فیروز پور روڈ پر1937 کنال زمین ایکوائر کی گئی۔ فیروز پور روڈ موضع تھے یا موضع پانجو موضع کا ہنہ میں نئے قبرستان کے منصوبے کی منظوری دی گئی اور بڑے زور و شور کے ساتھ موضع تھے اور موضع پانجو میں947کنال‘ موضع کاہنہ میں 989کنال اراضی حاصل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔2007ءمیں سیکشن فور کے تحت گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اہلِ لاہور خوش تھے‘ اب مرنے کے بعد آسانی کے ساتھ قبر مل سکے گی۔ افسوس کہ قبرستان کی زمین بھی سیاسی مصلحت کی نذر ہو گئی۔ 1000کنال کے قریب زمین ایل ڈی اے سٹی میں شامل کر لی گئی ہے اور باقی ماندہ زمین ڈی ایچ اے فیز10میں شامل کئے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سنجیدہ مسائل تو تب یاد رہیں گے جب موت یاد ہو گی۔ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس فرشتہ آیا‘ مجھے حکم ملا ہے کہ آپ کی جان نکال لی جائے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زور دار تھپڑ مار کر فرشتے کو واپس بھیج دیا۔ فرشتے نے اللہ کو صورتِ حال سے آگاہ کیا تو اللہ نے اپنے نبی کو پیغام بھیجا ان سے پوچھیں کتنا وقت اور چاہئے۔ ایک روایت میں آتا ہے دنبہ کے بالوں پر ہاتھ رکھنے کا کہا گیا‘ آپ کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال ہیں اتنی آپ کی عمر بڑھا دی جائے گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اس کے بعد‘ فرمایا گیا پھر موت۔ ان کی جان نہیں چھوٹی تو ہماری کیسے چھوٹ سکتی ہے یہ میرا مسئلہ نہیں۔ پوری قوم کا مسئلہ ہے اپنے اصل کی طرف لوٹا جائے اور حقیقی ذمہ داریوں کا احساس کیا جائے۔ امید ہے حکام بالا اس پر سوچیں گے۔