اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) پانامہ لیکس کا مقدمہ حتمی مراحل میں داخل ہو گیا شریف خاندان اور دیگر فریقین نے عدالت سے فیصلہ اپنے اپنے حق میں آنے کی امیدیں وابسطہ کر لیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، رواں ہفتے فیصلہ آنے کا قوی امکان ہے، حکومت اور تحریک انصاف نے فیصلہ حق میںنہ آنے کی صورت میں حکمت عملی بھی طے کر لی ہے تاہم عدالتی فیصلہ جس کے بھی خلاف آیا اس کو سیاسی اخلاقی لحاظ سے بڑا دھچکا لگے گا، تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ لیکس متعلق درخواستوں کی سماعت شروع ہوئے ایک سو سے زائد دن گزر چکے ہیں، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرڈ منٹ کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانامہ لیکس کی سماعت کے لیے بنچ از سر نو تشکیل دیا گیاہے اور 4جنوری سے 17فروری تک اس کیس کی 23سماعتیں ہو چکی ہیں، مقدمہ جسٹس عظمت سعید کی علالت کے باعث 13دن تک تعطل کا شکار رہا بھی رہا، گزشتہ سماعت پر وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں اور عدالت نے منگل سے شروع ہونے والی سماعت پر نیب اور ایف بی آر کے چیئرمین کو بھی ریکارڈ سمیت طلب کر رکھا ہے، اس سے قبل ہونے والے سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف، شیخ رشید، وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان، اورکیپٹن صفدر، مریم صفدر اور اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد اور طاروق اسد ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، آئندہ سماعت پر عدالت نیب اور چیئرمین نیب کو طلب کر لیا ہے، چیئرمین نیب کی طلبی کے حوالے سابق صدر سپریم کورٹ بار بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ میرے خیال سے سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ سے متعلق دیئے گئے بیان حلفی بارے وضاحت کے لیے طلب کیا ہے عدالت چیئرمین نیب سے اسحاق ڈار کے بیان حلفی میں کے مواد بارے سوالات کر سکتی ہے۔