ا سلام آباد(ویب ڈیسک) پانامہ لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو،بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی جبکہ نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے، نیب کی جانب سے اپیل نہ کرنے پر فیصلہ دیا تو چیئرمین نیب اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کے پاس تحقیقات کا اختیار ہی نہیں،جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سو ال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کون کر یگا ؟اگر ادارے کام کرتے تو آج اتنا وقت اس کیس پر نہ لگتا، یہ ٹیکس چوری کا معاملہ ہے عوام جاننا چاہتی ہے کس نے کتنا ٹیکس دیا ، نیب نے اپیل نہ کر کے اپنا قانونی کام مکمل نہیں کیا ، قانونی ذمہ داری پوری نہ کرنا بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے ۔ منگل کو پانامہ لیکس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز افضل ،جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الا احسن پرمشتمل اور 5 رکنی بینچ کی ، چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر ارشد ،چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری اور اٹارنی جنرل پیش ہوئے ،کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیئرمین ایف بی آر سے استفسا کیا کہ یہ طے ہے کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی غلط کام نہیں ہے ، لیکن ان کمپنیوں سے متعلق ایف بی آر کا اکردار کیا ہے ، چیرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکس بچانے کے معاملات کے لیے پاناما جنت ہے۔ پاکستان اور پاناما کے درمیان ٹیکس معلومات کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیںوزارت خارجہ کے ذریعے رابطوں کی کوشش کی ہے اس پر جسٹس عظمت سعید نے چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کیا کہ ایف بی آر نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزارت خارجہ سے کب رابطہ کیا تھا اورپاناما لیکس پر آف شور کمپنیوں کے مالکان کو کب نوٹس جاری کئے تھے۔ جس پر چیئرمین ایف بی آرڈاکٹر ارشاد نے بتایا کہ اکتوبر میں رابطہ کیا تھا جبکہ 2 ستمبر 2016 کو 343 افراد کو نوٹسز جاری کئے گئے تھے۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 200 گز کا فاصلہ 6 ماہ میں طے کرنے پر آپ کو مبارک ہو، چیرمین ایف بی آر نے جواب میں کہا کہ آف شور کمپنیوں پر صرف ڈائریکٹرز کا نام ہونا کافی نہیں ہوتا اس کے اور بھی تقاضے ہوتے ہیں، 49 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے ڈائریکٹرز کا تعلق پاکستان سے نہیں جبکہ 52 افراد ایسے ہیں جنہوں نے کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کر دیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ شریف فیملی کو نوٹس جاری کرنے پر کن کا جواب آیا۔ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ حسن،حسین اور مریم نواز نے آف شور کمپنیوں پر جواب دیا، مریم نواز نے کہا ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اوروہ کسی آف شور کمپنی کی بھی مالک نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ مریم نے اپنے جواب میں ٹرسٹی ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ جواب موصول ہونے کے بعد آپ نے کیا اقدامات کیے، چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ہم تمام معلومات کی تصدیق کر رہے ہیں۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ 7 گھنٹوں کے کام میں چیرمین ایف بی آر نے ایک سال لگا دیا، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ کوتصدیق کےلیے 30 سال درکارہیں،جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر جو کر رہا ہے سب کے سامنے ہے، کون کب سے بیرون ملک ہے ایک گھنٹے میں پتا چل سکتا ہے، ریکارڈ دکھائیں کہ ٹریول ہسٹری کے لیے کس ادارے کو کب لکھا گیا، جس پر وکیل ایف بی آر کا کہنا تھا کہ عدالت کو دکھانے کیلئے ریکارڈ موجود نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو تحقیقات بڑھانے کے لیے عدالت کی مداخلت درکار ہے۔ ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ ادارے کی جانب سے فوری اقدامات نہیں کیے گئے لیکن ایک ایشو یہ بھی تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے الفاظ میں آپ کا مطلب ہے ایف بی آر نے منی لانڈرنگ پر کچھ نہیں کیا۔ وکیل ایف بی آر نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے لیے الگ قوانین اور ادارے موجود ہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے وکیل ایف بی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں کارروائی کرنا ہوتی ہے ایف بی آر فوری کارروائی کرتا ہے، آپ کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے تھا، جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی ادارہ کام کرتا تو کیس عدالت میں نہ آتا۔عدالت نے چیر مین نیب کو روسٹرم پر بلایا گیا تو چیر مین نیب کا کہنا تھا کہ نیب اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے، ستمبر 2016 میں معاملہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں آیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کمیٹی میں نیب کا موقف تھا کہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں، چیئرمین نیب نے جواب دیا کہ نیب کا موقف ہے کہ متعلقہ ادارے کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں۔جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ کیا نیب آرڈی نینس میں کسی ریگولیٹر کا ذکر ہے، ریگولیٹر نیب کے کام میں رکاوٹ کیسے بن گیا جبکہ جسٹس گلزار نے چیر مین نیب سے استفسار کیا کہ کیا نیب کو بھی کوئی ریگولیٹ کرتا ہے جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو اس کے قوانین ریگولیٹ کرتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب قانون چیئرمین کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے، ریگولیٹر کا لفظ آخر کہاں سے آیا جبکہ قطری خط میں بھی ریگولیٹر آف پاکستان کا ذکر تھا لہذا پاکستان میں آخر ریگولیٹر ہے کون، کیا ریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین کو تعینات کرتا
ہے، اوگرا اور نیپرا کا تو بطور ریگولیٹر سنا تھا لیکن نیب کا ریگولیٹر کون ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آج پتہ چل گیا کہ نیب کا ریگولیٹر کون ہے، جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ نیب کی ٹیم کو سن کر افسوس ہوا، پراسیکیوٹر جنرل صاحب اب بس کر دیں، آپ نے معاونت کے بجائے عدالت کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو،بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی جبکہ نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کو دائرہ اختیار ہی نہیں، نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں تو آخر کس کے پاس ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کرے گا کون؟ اگر ادارے کام کرتے تو آج اتنا وقت اس کیس پر نہ لگتا۔چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا، میری تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ چیئرمین نیب کو تعینات کرنے والے بھی نہیں ہٹا سکتے، اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایک سال گزر گیا لیکن نیب نے کچھ نہیں کیا۔جسٹس شیخ عظمت نے چیر مین نیب سے استفسار کیا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس آتا تو نیب انکوائری کرتا، جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھتے تو سہی، کسی ایک بندے سے پوچھا کہ سرمایہ کہاں سے آیا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب کے لیے یہ اطلاعات نئی نہیں تھیں، ہائی کورٹ نے ریفرنس خارج کردیا تو پھر بھی مواد موجود تھا، نیب نے بینک اکاو¿نٹس اور ٹرانزیکشنز پر کیا کارروائی کی جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم کارروائی ضرور کریں گے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگوں کو امید تھی کہ آپ آف شور کمپنی والوں سے پوچھیں گے، سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا چیئرمین صاحب سوال تو پوچھ لیا ہوتا جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ تاخیر ہوئی لیکن اپنا کام ضرور کروں گا، عدالت کو کارروائی کا یقین دلاتا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ کیا کارروائی کریں گے آپ چیئرمین صاحب۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا آپ کے کام نہ کرنے کی وجہ وہ شخص ہے جس نے آپ کو تعینات کیا، نیب غیر سنجیدہ مقدمات میں بھی اپیل دائر کرتا ہے اور نیب وکلاءکہتے ہیں حکام بالا کو مطمئن کرنے کے لیے اپیل کرتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 1.2 ارب روپے کا ریفرنس خارج کردیا، ہائیکورٹ کے فیصلے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہائیکورٹ کے ریفری جج نے اس معاملے پر فیصلہ دیا جو ان کو بھجوایا ہی نہیں گیا، سوال یہ ہے کہ ریفری جج کو اپنی آبزرویشن دینا چاہیے تھی۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ عدالت کے دائرہ اختیار پر قانونی معاونت فراہم کروں گا، درخواستوں میں وزیر اعظم کی نااہلی مانگی گئی ہے اور نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں، حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی درخواستیں دائر کیں لیکن حنیف عباسی کی درخواستوں کو پانامہ کیس سے منسلک نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے، اس کیس کے لیے منتخب کیا گیا فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے جبکہ درخواستیں کو وانٹو اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں لہذا ایسی درخواستوں کی سماعت کرنا عدالت کا معمول نہیں، ایسے مقدمات کی سماعت عدالت کا دائرہ اختیار نہیں جبکہ ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی، عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلے منٹ پر لاگو ہو گا۔اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آرٹیکل 184 تین کے تحت عوامی مفاد کی درخواستیں سننے کا اختیار ہے،قانونی مثال دیں کہ عدالت نے اختیار ہوتے ہوئے استعمال نہ کیے ہوں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ان کی آواز بنی ہے جو اپنی آواز خود نہیں اٹھا سکتے،عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اپنا اختیار استعمال کیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکے ہیں جبکہ اختیارات کا استعمال کیس کے حقائق کے مطابق کیا جاتا ہے اور اچھے جج کبھی اپنے اختیارات پر قدغن نہیں لگاتے، جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہوتا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دائرہ اختیار قانون کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دیکھنا ہو گا عدالت کے پاس دستیاب ریکارڈ کیا ہے اور پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا بنیادی حقوق متاثر ہوئے، کیا عدالت نے اس مقدمہ میں کسی کو سننے سے انکار کیا جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فریقین کا متفق ہونا بھی عدالت کو اختیار نہیں دیتا اور عدالت نے شفاف ٹرائل کو بھی دیکھنا ہے اور بات مقدمہ سننے کی نہیں فیصلے کی ہے۔جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی کی غلط بیانی پر اس کو نا اہل کر سکتے ہیں جبکہ کونسا آدمی ہو گا جس نے بیوی سے جھوٹ نہیں بولا، بیوی فون کرے تو خاوند کہتا ہے راستے میں ہوں جب ہ خاوند دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوتا ہے، صرف وہ شخص جو شادی شدہ نہیں وہ بیوی سے جھوٹ نہیں بولتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ ہماری بھی ایک عدالت ہے جبکہ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکس چوری کا معاملہ ہے نیب نے اپیل نہ کرکے اپنا قانونی کام نہیں کیا ہے ، قانونی ذمہ داری پوری نہ کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ نیب کی جانب سے اپیل نہ کرنے پر درخواست گزار اب تک کیا کر رہے تھے ، یہ درست ہے کہ غفلت برتنے پر نیب نے عوام کے بنیادی حقوق کو متاثر کیا ہے ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے استفسا ر کیا کہ کیا عدالت کو حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں مداخلت نہیں کر نی چاہیے ، کیا ہم 1.2ارب کی بدعنوانی کے معاملے کو بغیر حساب کتاب کے جانے دیں ، اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ سوال میرے لیے آسان نہیں ہے ، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کی رائے ہے کہ عدالت حدیبیہ پیپر مل کیس دوربارہ نہیں کھلوا سکتی ، اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میری رائے یہی ہے کہ عدالت اس کیس کو دوبارہ نہیں کھلوا سکتی ، اگر اس حوالے سے کوئی فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک بری مثال بن جائیگی ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ آئیندہ ایسا نہ ہو سکے اس حوالے سے بھی تو ہمیں کوئی اصول وضع کرنے چاہیے ، اس کیس کی دورس نتائج برآمد ہوں گے ، اگر عدالت نے نیب کی جانب سے اپیل نہ کرنے پر فیصلہ دیا تو چیئرمین نیب اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے ، عدالت نے کیس کی سماعت آج (بدھ) تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ صرف جواب الجواب کا موقع دیا جائے گا مزید دستاویزات وصول نہیں کی جائینگی جبکہ اٹارنی جنرل آج ہی ہر صورت اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔