لاہور (خصوصی رپورٹ) خفیہ طریقے سے قائم پوشیدہ لیبارٹریز میں آئس نامی نشہ تیار کرکے ملک بھر میں فروخت کیا جارہا ہے۔ تعلیمی اداروں اور گلیوں میں پھیلائے جانے والے اس نشے کی لعنت میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جھاڑی نما مخصوص قدرتی پودوں اور درختوں سے حاصل کئے جانے والے میتھافیٹامائن نامی کیمیکل کے جز سے آئس نامی نشہ تیار کیا جاتا ہے۔ اب یہ نشہ پاکستان کی درسگاہوں تک آئس کی صورت میں پہنچ گیا ہے۔ طلباءو طالبات اور مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کی بڑی تعداد اس نشے کی لعنت میں مبتلا ہورہے ہیں۔ بروف سے مشابہت رکھنے والا آئس نامی نشہ میتھافیٹا مائن ہائڈروکلورائیڈ کے جز میں مختلف زہریلے کیمیکلز کی ملاوت سے تیار کیا جاتا ہے جو کہ الام آباد‘ راولپنڈی‘ پشاور‘ لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں کھلم کھلا فروخت کیا جارہا ہے اور اس نشے کے عادی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد میں چرس‘ شراب اور کوکین کا نشہ کرنے والے بھی شامل ہورہے ہیں کیونکہ بغیر بدبو والے اس نشے کی یہ خاصیت بھی ہے کہ اسے سگریٹ کے ذریعے عوامی مقامات پر بآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی اور این ای ڈی یونیورسٹی میں آئس نشے کی فروخت کرنے والے میں مخصوص ملازمین بھی شامل ہیں تاہم ان تعلیمی اداروں کی جانب سے اس امر کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ اس حوالے سے پولیس کے ذمہ دار افسر نے بتایا کہ کراچی جوہر آباد تھانے کی ایک مہم نے چھ مارچ کو غریب آباد کے علاقے میں چھاپے مار کر عامر عرف بھیو کے نامسے شہرت رکھنے والے شخص کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ پل کے نیچے نشے کی پڑیاں بیچن کے لئے موجود تھا۔ دوران چھاپہ ملزم سے درجنوں آئس پاﺅڈر کی پڑیا برآمد کی گئیں بعدزاں گرفتار ملزم کی نشاندہی پر ذاکر نامی منشیات فروش کو بھی راتوں رات گرفتار کرک آئس پاﺅڈر برآمد کیا گیا جبکہ اس گروپ کے دیگر ساتھیوں میں ایک نام عدنان عرف انکل کا بھی شامل ہے۔ اس نشے کو پھیلانے والوں کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں تاہم انہوں نے گرفتار ملزمان کے درست ناموں اور تعداد کی تصدیق نہیں کرائی مگر ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ عامر بھیو کے نام سے مشہور نشہ فروش جامعہ کراچی کا ملازم ہے۔ پولیس ذرائع نے واضح کیا کہ آئس نامی نشہ فروشی کا سلسلہ کراچی میں برسوں سے جاری ہے۔ یہ گروپ کراچی کے مختلف مقامات پر مخصوص اوقات میں نشہ فروخت کرنے اور نشئی لڑکیوں کی عصمت دری بھی کرتا رہا ہے۔ عامر کے نام سے پہچانے جانے والا آئس نشہ فروش غریب آباد بندھائی کالونی کا رہائشی ہے جو جامعہ کراچی اور این ای ڈی یونیورسٹی بآسانی رسائی رکھنے کی وجہ سے متعدد طلبا و طالبات کو اس نشے میں مبتلا کرچکا ہے جبکہ اس کا دوسرا ساتھی ذاکر نیو کراچی سندھ گورنمنٹ ہسپتال کے سامنے جیو موبائل مارکیٹ کے چاروں اطراف گھومتے پھرتے آئس نشے کی پڑیا فروخت کرتا تھا۔ ذرائع نے اس گروپ کے تیسرے رکن کی پہچان عدنان عرف انکل بتائی ہے۔ جس کا ٹھکانہ کراچی کراچی ٹبا ہسپتال کے قریب تھا۔ اس گروپ کے مختلف کارندے گلشن اقبال ڈسکو بیکری سمیت کراچی کے مختلف مقامات پر آئس نشہ کرتے ہیں بلکہ موبائل فون پر خریداروں کو ان کی سہولت کے مطابق نشہ سپلائی کیا جاتا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ سہراب گوٹھ‘ لیاری‘ نیو کراچی و دیگر گنجان آباد علاقوں میں اس نشہ کو تیار کرنے کی غیرقانونی لیبارٹریوں کی موجودگی کسی صورت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کیونکہ 2012ءمیں کراچی ڈی ایچ اے میں واقع ایسی ایک غیرقانونی لیبارٹری جہاں آئس نشہ تیار کیا جاتا تھا اچانک دھماکہ کی وجہ سے منظرعام پر آئی تھی۔ یہی حال لاہور اور پشاور کا ہے‘ جہاں اسی طرز کے مختلف گروپس نے علاقائی سطح پر خفیہ لیبارٹریز قائم کر رکھی ہیں جہاں آئس نشہ کو تیار کر کے فروخت کیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ علاقائی سطح پر غیرقانونی لیبارٹریوں میں تیار ہونے والا نشہ دوسرے درجے کا ہے‘ جہاں سے تیارکردہ آئس نشے کی ایک پڑیا ایک ہزار سے 2ہزار روپے میں فروخت کی جاتی ہے جبکہ اصل تیارکردہ آئس نشے کی ایک پڑیا 5سے 10ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ اس نشے کی خاصیت ہے کہ اسے استعمال کرنے والا مسلسل 4روز جاگ سکتا ہے‘ اسی لئے بیشتر طلباءامتحانات کی تیاری کیلئے آئس نشے کا استعمال کرتے ہیں۔ آئس نشے کی بنیاد میتھافینامن ہے جسے وزن گھٹانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے‘ مگر اس کے استعمال کرنے کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ 1920ءمیں جرمنی نے اس کے ذریعے مختلف بیماریوں کا علاج دریافت کیا‘ 1930ءتک دمہ‘ بخار اور سردی کے بچاﺅ کیلئے استعمال ہوا۔ 1950ءکے ادوار میں امریکہ نے میتھاڈرین کی گولیاں بنانا شروع کیں جس کے بعد طلبائ‘ ٹرک ڈرائیور اور کھلاڑی اس کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ 1970ءمیں اس کے انجکشن مارکیٹ میں فروخت ہونے لگے۔ پانی اور الکحل میں فوری حل ہونے والی میتھافینامن سے تیارکردہ آئس نشے کا استعمال مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ سگریٹ کو تمباکو سے آدھی خالی کرنے کے بعد درمیان میں آئس پاﺅڈر کو ڈال کر پینے یا پھر پائپ کے ذریعے ناک سے دماغ پر چڑھانا اور جلا کر پینے کے علاوہ انجکشن سے بھی اس نشے کو جسم میں داخل کیاجاتا ہے۔ اینٹی نارکوٹکس فورس نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ڈرگ سپلائزر کے خلاف سپیشل کریک ڈاﺅن شروع کرتے ہوئے اب تک 12ملزمان گرفتار کئے ہیں۔ اس کے باوجود ملک بھرکے تعلیمی اداروں‘ بازاروں میں آئس نشے کی فروخت کا سلسلہ جاری ہے جس کی اصل ذمہ دار علاقائی پولیس سمجھی جاتی ہے۔