لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں وتبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ کار ضیا شاہد نے بیدیاں روڈواقعہ پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سہولت کار وفنانشل دہشت گرد اسکی جڑیں ہیں۔ پاک افواج پر فخر ہے کہ انہوں نے مایوس ہونے کے بجائے ہمیشہ اس چیلنج کو قبول کیا۔ ترجمان پاک فوج کا بیان سن کر بہت خوشی ہوئی کہ مردم شماری جاری رہے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج کا کام نہیں بلکہ ہر خاص وعام کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ سیاستدان برسوں سے اپنے اداروں کو مضبوط کرنے میں ناکام رہے جسکی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ دار فوج ملک کے اندرونی معاملات میں بھی قوم کیلئے اپنی خدمات انجام دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں لگنے والے مارشل لاءکی حمایت نہیں کرتا لیکن فوج کے ساتھ دشمنانہ رویہ ختم ہونا چاہیے۔ آصف زرداری سے لے کر خواجہ آصف تک کے صف اول کے سیاستدان فوج پر طنز کرتے ہیں کیا یہ خود دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن میں جا سکتے ہیں۔ مردم شماری، آزادکشمیر زلزلہ، تھر میں قحط اور سڑک کی تعمیر سمیت دیگر تقریاتی کاموں میں فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور جب وہ آ جاتی ہے تو طنز کیا جاتا ہے کہ یہ کام فوج کو نہیں کرنا چاہیے۔ فوج کی ہمت ہے کہ اتنا کچھ برداشت کرتی ہے اور ہزاروں جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود ملک وقوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے۔ محکمہ پولیس اپنا کام ٹھیک کر رہا ہوتا تو چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے فوج کو بلانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے بانی متحدہ کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھارت کے دباﺅ میں آ کر ختم کیا کیونکہ اگر تحقیقات ہوتیں تو ثابت ہو جانا تھا کہ یہ پیسہ بھارتی سفارتخانے سے ماہانہ وصول ہو رہا تھا جس کو چھپانے کیلئے برطانوی حکومت نے غیرمعمولی حد تک جا کر مقدمہ ختم کر دیا۔ خود میں نے لندن کے ہسپتال میں 4 ماہ علاج کروایا تھا وہاں ایک دوسرے کو چھوٹی سی رقم دینا بھی کتنا مشکل ہوتا ہے اسکا بخوبی اندازہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شملہ معاہدے میں یہ تھا کہ پاک بھارت کشمیر سمیت دیگر مسائل مذاکرات سے حل کرینگے۔ ذوالفقار بھٹو نے شملہ معاہدے کیلئے جانے سے پہلے 8 دن تک مری میں مختلف مکاتب فکر کے وفود سے ملاقاتیں کیں۔ وہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ بہت اہم مشن ہے اس لیے لوگوں سے مشورہ کر کے جا رہا ہوں۔ مجھ سمیت کچھ اخبارنویسوں کی بھی ان سے ملاقات ہوئی جس دوران ایک اخبار نویس نے سوال کیا کہ ہم کمزور پوزیشن میں ہیں۔ جواب میں بھٹو نے کہا کہ ہم اپنے مفادات کی خاطر انکی بات مان لیں گے اور جب کل طاقتور ہو جائیں گے تو انہوں نے ایک کاغذ پھاڑ کر کہا کہ معاہدے کا یہ کرینگے لیکن اس معاہدے پر عمل ہی نہیں ہوا جسکی وجہ سے میرے نزدیک تو یہ ختم ہو چکا ہے۔ معاہدوں پر عمل نہ ہو تو انہیں توڑ دیتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی کمزوری رہی ہے کہ کھل کر شملہ معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان نہیں کرتیں۔ سابق صدر مشرف کے ساتھ ایک دفعہ امریکہ گیا وہاں اس وقت کے امریکی کچھ اخبار نویسوں کی صدر بش سے ملاقات کرائی گئی۔ مجھے کشمیر پر بات کرنے کا اشارہ دیا گیا تو میں نے بش سے مسئلہ کشمیر پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ پاک بھارت کے درمیان اس پر شملہ معاہدہ ہوا ہے وہ مداخلت نہیں کر سکتے جس پر میں نے کہا کہ کشمیر میں رائے شماری کرانے کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں امریکہ نے بھی حمایت کی ہے۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ بھار ت کو شملہ معاہدے پر عمل کرنے کیلئے مجبور کریں۔ بش نے کہا کہ وہ ایسا کرینگے لیکن پھر بھی کوئی عملدآمد نہیں ہوا۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ علاقے کے امن کو خطرہ ہے ایک قوم کی آزادی گروی پڑی ہوئی ہے لہٰذا ہر وہ ملک جو کشمیر میں رائے شماری کا حمایتی ہے اسکی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کو شملہ معاہدے پر عمل کرنے کا کہے۔ ایران کے اسلامی اتحاد میں فورس کا رکن نہ بننے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بھٹو دور میں شاہ فیصل شہید اور ذوالفقار بھٹو کی کوششوں سے لاہور میں اسلامی کانفرنس ہوئی تھی تو اس وقت ایران بھی شامل تھا۔ ا گر اس وقت شریک تھا تو اب کیا وقت ہے۔ اس وقت بھی شاہ فیصل شہید سعودی عرب کے بادشاہ تھے۔ پاکستان بار بار کہتا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کی مدد کیلئے اپنی فوج نہیں بھیجی۔ واضح کیا کہ ایران یا شام کے خلاف سعودی عرب کی کسی کارروائی میں بطور فریق موجود نہیں۔ ایرانی قیادت سے ہمیشہ کہا کہ اس ضمن میں پاکستان صرف صلح وصفائی کیلئے مدد کر سکتا ہے۔ اورنج ٹرین کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی ڈویلپمنٹ کے حق میں ہوں۔ اگر کہیں بہت اہم تاریخی ورثے کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اسے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر پنجاب حکومت بین الاقوامی معیار کی ٹرین چلانے کا منصوبہ بنایا ہے تو یہ اچھا ہے اسے مکمل ہونا چاہیے۔ شام کے حالات بارے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کو کبھی سچ بولتے نہیں دیکھا۔ اگر وہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ نہیں کرنا چاہتے تھے تو اس کے خلاف جنگ کیوں شروع کی۔ امریکہ کو وہاں سے کچھ نہیں ملا انہوں نے شام کو تباہ کرنا تھا کر دیا۔ افغانستان کو تباہ کرنے کیلئے بھی امریکہ نے اسامہ کا بہانہ بنایا تھا۔
