تازہ تر ین

پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی پر سوالیہ نشان؟

پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں تین ایک سے شکست کے بعد ون ڈے سیریز بھی دو ایک سے اپنے نام تو کر لی لیکن اس جیت نے بھی پاکستان کی کارکردگی اور سلیکشن کے اوپر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ امید تو یہ تھی کہ ویسٹ انڈیز کی ناتجربہ کار ٹیم کو پاکستان بآسانی کلین سویپ شکست سے دوچار کرے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ پاکستان خود بیٹنگ اور باﺅلنگ کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ میں بھی بُری طرح بے نقاب ہوا جہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ کامران اکمل کو ڈومیسٹک کی کارکردگی پر سلیکشن کمیٹی نے موقع دیا تو وہیں پر سلیکشن کمیٹی کو ہر اس کھلاڑی کو موقع دینے کی ضرورت ہے جو ڈومیسٹک سیزن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ سلیکشن کمیٹی کے ممبران کو خود گراﺅنڈز میں جا کر لڑکوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے نہ کہ صرف کسی کے کہنے پر میڈیا ٹی وی پر ایک دو میچز دیکھ کر کسی کو سلیکٹ کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ اوپننگ بیٹسمین کا مسئلہ ایک عرصے سے چلا آ رہا ہے اول تو اچھا اوپنر نہیں مل رہا اور اگر ملتا ہے تو وہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی زد میں آ جاتا ہے لہٰذا سلیکشن کمیٹی نے ایسا فیصلہ جس کے دورس اثرات ہوں لینے کی بجائے چلے ہوئے کارتوسوں کو موقع دینے پر اکتفا کیا۔ کامران اکمل اور احمد شہزاد کو موقع دینا اس چیز کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کے اندر کام کرنے والے ادارے کسی بھی اوپننگ بلے باز کو ڈھونڈنے یا تیار کرنے میں بُری طرح ناکام نظر آئے جس کی وجہ سے ہمیں پُرانے کھلاڑیوں کو دو تین سال بعد دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ کامران اکمل اور احمد شہزاد دونوں کھلاڑی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے اور سلیکشن کمیٹی اس بات کا اشارہ بھی دے چکی ہے کہ اگر کوئی کھلاڑی کارکردگی نہیں دکھائے گا اس کو موقع نہیں دیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد لگتا تو یہی ہے کہ آئندہ ان کو موقع نہیں دیا جائے لیکن اس کیلئے ضروری ہے ان کھلاڑیوں کا متبادل بھی تیار کیا جائے جوکہ مشکل نظر آتا ہے۔ شعیب ملک اور محمد حفیظ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرے ون ڈے میں جو کارکردگی دکھائی اس سے لگتا ہے کہ وہ دونوں اپنی جگہ کو صرف پکا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ شعیب ملک نے 14 اکتوبر 1999ءکو شارجہ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہی اپنا پہلا ون ڈے میچ کھیلا تھا اور اب تک 247 ون ڈے میچز کھیل چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے کریڈٹ کے اوپر صرف 9 سنچریاں ہیں اور ویسٹ انڈیز کے خلاف نویں سنچری انہوں نے 20 اننگز کے بعد بنائی ہے جس سے ان کی کارکردگی میں تسلسل کا صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سلیکشن کمیٹی کو ان پرانے پلیئرز کو خدا حافظ کہہ دینا چاہیے اور مزید نئے لڑکوں کو مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ سلیکشن کمیٹی نے کچھ نئے لڑکوں کو سکواڈ میں تو ضرور شامل کیا ہے لیکن ان کو پلیئنگ الیون کا حصہ نہیں بنایا جا رہا۔ آصف ذاکر، فہیم اشرف، فخر زمان اور محمد اصغر کو بالکل بھی موقع فراہم نہیں کیا گیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم انڈرپریشر ہے اور نئے لڑکے کو موقع دینے سے کترا رہی ہے۔ مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سلیکشن کمیٹی پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے کہ ایسے نئے لڑکوں کی تلاش کی جائے جوکہ مڈل آرڈر میں تسلسل کے ساتھ بلے بازی کر سکیں نہیں تو پاکستان ٹیسٹ رینکنگ میں چھٹے سے بھی نیچے آ سکتا ہے۔ بھاری تنخواہوں کے ساتھ کام کرنے والی سلیکشن کمیٹی جس کے سربراہ خود ایک بلے باز رہ چکے ہیں کو گراﺅنڈز میں جا کر نئے بلے بازوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جوکہ لمبے عرصے تک پاکستان کیلئے کھیل سکیں اور ساتھ ہی ساتھ آنے والے ورلڈکپ کیلئے بھی ٹیم تیار کی جا سکے۔
٭٭٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain