مدھوبالا
ان کی حرکتوں کی وجہ سے 1957 کو بی۔آر چوپڑہ کی فلم ”نیا دور“ کو عدالت کے دروازے تک جانا پڑا۔۔۔ اس دروازے پر وہ سانحہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔۔۔ ایک مرد نے دوسرے مرد کو نیچا دکھانے کیلئے عورت کی توہین کردی۔۔۔ دلیپ کمار نے بھرے مجمع میں مدھو بالا کے گال پر طمانچہ جڑدیا۔۔۔ سپنوں کا گھروندا اور اس میں بسا دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگیا۔ یہ ٹکڑے پھر کبھی نہ جڑ سکے۔ محبت بعض اوقات جان بھی لے لیتی ہے۔
عورت کی محبت ہمیشہ مرد سے گہری رہی ہے۔ توہین کا بار اٹھائے عورت نے مرد کو دوبارہ پانے کی جستجو شروع کردی۔ دلیپ کمار کو متوجہ کرنے کیلئے انہوں نے شمی کپور سے محبت کا ڈرامہ کیا لیکن بے سود۔ مرد منہ موڑ چکا تھا۔۔۔ دکھی دل کی ڈھارس بندھانے کشور کمار پہنچے۔۔۔ کشور کمار کی بے غرض دوستی نے انہیں سہارا تو دیا لیکن پندار محبت۔۔۔؟
”تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے۔۔۔ ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے۔“
انہوں نے کشور کمار کو اپنا لیا۔۔۔ اس دوران”پھاگن،باغی سپاہی،کالا پانی،ھورا برج،چلتی کا نام گاڑی اور برسات کی رات“ جیسی کلاسیک فلموں کے ذریعے انہوں نے جتادیا کہ ان کے اندر کا فنکار مرا نہیں ہے لیکن ان کی زگ زیگ زندگی پر اچٹتی نظر ڈالنے سے ہی پتہ چلتا ہے وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔۔۔ فلم پھاگن کا یہ گیت ان کی المیہ زندگی کی کیا خوب ترجمانی کرتا ہے۔۔۔ ”اک پردیسی میرا دل لے گیا ، جاتے جاتے میٹھا میٹھا غم دے گیا۔“
باپ کے ساتھ تعلقات بگڑتے چلے گئے۔ عطااللہ خان نے راتوں رات دولت مند بن جانے کے جنون میں مدھو بالا پرائیویٹ لمیٹڈ بنائی جو اپنی موت آپ مرگئی۔ دوسری جانب ان کے دل کی حالت نازک ہوتی جارہی تھی۔ ڈاکٹر 1954ءمیں بتاچکے تھے کہ وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہیں۔
بہادر لڑکی مردانہ سماج سے تو لڑتی رہی مگر 1960ءمیں خود سے ہار گئی۔ ایسے میں کشور کمار نے خود کو پیش کیا اور وہ ان کا شوہر بننے کیلئے عبداللہ بن گئے۔کہا جاتا ہے مدھو بالا نے یہ شادی محض دلیپ کمار اور عطااللہ سے انتقام لینے کیلئے کی۔کشور کمار نے دل و جان سے ان کی خدمت کی , پھولوں کی طرح انہیں رکھا۔
اسی سال”مغل اعظم“ ریلیز ہوئی۔ محبت زندہ باد کے نعروں سے مزین یہ ورلڈ کلاس فلم دراصل دلیپ کمار اور مدھو بالا کی زہر ناک ذاتی زندگی کی المیہ یادگار ہے حالانکہ اسے ناقابل فراموش رومانٹک فلم سمجھا جاتا ہے۔اس فلم کی شوٹنگ کے دوران دونوں فنکاروں کی بات چیت تک بند ہوچکی تھی۔سینما ھال میں”پیارکیا تو ڈرنا کیا“ دیکھتے ہوئے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں , روتے روتے نڈھال ہوگئیں۔انارکلی تمہیں سلیم کو بھولنا ہوگا۔
انارکلی نہ سلیم کو بھول پائی اور نہ انارکلی کو عوام غالباً اسی لیے دورحاضر کے باکمال ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی نے اپنی فلم”باجی راو¿ مستانی“ کے ایک گیت”میں دیوانی , مستانی ہوگئی“میں دیپکا پڈکون کے ذریعے مغل اعظم کی مدھوبالا کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی اور خبروں کے مطابق بھنسالی ان کی زندگی پر فلم بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ کاش خبر حقیقت بن جائے۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کہ مصداق وہ بستر مرگ سے لگ گئیں۔باقی ماندہ فلموں کو انہوں نے بیماری کی حالت میں مکمل کیا۔کشور کمار ساتھ تھے مگر پیاسی روح کو سیراب کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔
فلمیں دیکھنے کا بچپن سے شوق تھا سو 1969ءکو علالت کے دوران”پڑوسن“دیکھنے سینما چلی گئیں۔ ان کیلئے خاص انتظامات کیے گئے تاہم فلم کے دوران انہیں شدید درد اٹھا گھر پہنچتے پہنچتے تیز بخار نے آلیا۔ دوسروں کی زندگی کو بامعنی بنانے والی کی زندگی بے معنی ہوچکی تھی۔ آکسیجن ماسک چڑھائے گئے ، انجکشن اور دواو¿ں سے انہیں واپس لانے کی کوشش کی گئی۔وہ بس خالی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ وہ سپنے جو ٹوٹ چکے تھے۔ امیدیں جو نقش برآب ثابت ہوئیں۔ ساتھی جو بچھڑ گئے وہ محبت جو کبھی نہ ملی۔
زندگی سے لڑتے لڑتے وہ 23 فروری 1969ءکو ہمیشہ کیلئے دنیا چھوڑ گئیں۔ آئیے ان کی فلم ”شیریں فرھاد“ کا یہ گیت گنگناکر اس عظیم فنکارہ کو الوداع کہیں :۔
گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ ، حافظ خدا تمہارا۔
٭٭٭
۔۔۔