شاعرشکیل بدیوانی
شکیل بدیوانی کے نام سے ادبی اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والا شاید کوئی ایسا شخص ہو گا جو واقف نہ ہو۔ یہی حال اس کی دھن بنانے والے موسیقارکا ہے۔نوشاد جو موسیقار اعظم کہلاتے ہیں، کی شہرت بھی اس قدر ہے کہ ان کے بارے میں کچھ لکھنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ رہی گانے والی ہستی جس کو لوگ لتا کے نام سے جانتے ہیں۔ تو اس نے بھی اس نعت کو گا کر حق گائیکی ادا کر دیا اور شاید اسی نعت کا صدقہ ہے کہ شکیل اور نوشاد کے علاوہ لتا ءکو بھی جو ہندو مذہب کی پیروکارہے، قدرت نے دنیاوی نعمتوں سے نوازا۔ فلموں میں نعتوں کا استعمال سب سے پہلے شکیل بدیوانی ہی نے کیا تھا۔ انیوں نے اپنی فلم سب سے پہلی فلم ”درد“ میں بھی بڑی خوبصورت نعت تھی۔جس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔اس کے بول تھے ” بیچ بھنورمیں آج پھنسا ہے دل کا سفینہ شاہ مدینہ“ یہ نعت ثریا نے نوشاد کی موسیقی میں گائی تھی۔ان کی ایک اور نعت فلموں سے ہٹ کر بھی بڑی مقبول ہوئی تھی، جس کے بول یہ تھے۔
نہ کلیم کا تصور نہ خیال طور سینا
میری آرزومحمدمیری جستجو مدینہ
شکیل بدایونی کے دل میں عشق رسول اس قدر موجزن تھاکہ اس کی کوئی تھاہ نہیں تھی۔جب ہی تو ایسی نعتیں ان کی دل کی گہرائیوں سے نکلیں۔ ان کا ایک نعتیہ مجمو عہ کلام 1950ءمیں ”نغمہ فردوس“ کے نام سے شائع ہوکر مقبولیت پاچکا ہے۔ شکیل بدایونی کا اصل نام شکیل احمد قادری تھا۔ یہ 3اگست 1916ءکو یوپی کے مشہور شہر بدایوں میں پیدا ہوئے یہ اسم بامسمی تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں قائم مکتب میں ہوئی اس کے بعد ان کو اسلامیہ ہائی سکول بدایوں میں داخل کرا دیا گیا۔ انہوں نے 1936ءمیں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ چلے آئے اور 1942ءمیں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ بعدمیں یہ دہلی میں ڈائریکٹریٹ جنرل سپلائی اینڈڈیولپمنٹ میں ملازم ہوگئے اورع یہ ملازمت 1946ءتک قائم رہی۔پھر وہ ممبئی جا کر بطور نغمہ نگار فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے اوعرر مرتے دم تک اسی سے وابستگی قائم رکھی۔
شکیل بدایونی نے ایک علمی ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد بمبئی میں ایک مسجد میں پیش امام تھے۔ چنا نچہ بدایوں میں ان کے سرپرست ان کے تایا مولانا ضیاءالقادری تھے جو مشہور نعت گو شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز 16سال کی عمر میں کردیا تھا، جب یہ علی گڑھ پہنچے تو راز مراد آبادی کے توسط سے جگر مراد آبادی تک رسائی حاصل کی اورع اس طرح یہ جگر صاحب کے حلقہ احباب میں شامل ہوگئے۔ جگر مراد آبادی ان کو بہت پسند کرتے تھے۔ اور وہ اپنے ساتھ انہیں ہندوستان کے مختلف شہروں میں منعقد کئے جانے والے مشاعروں میں لے جانے لگے۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا اور پھرپڑھنے کا انداز بھی بہت خوبصورت تھا جس کی وجہ سے یہ مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ مشاعروں کے بھی بڑے کامیاب شاعر مانے جاتے تھے۔ ہندوستان کا کوئی ایسا شہر نہ ہوگا جہاں انہیں مشاعرہ پڑھنے کے لیے نہ بلوایا گیا ہو۔ یہ پاکستان میں بھی مشاعرہ پڑھنے چار بار آچکے تھے اور مشاعرہ لوٹ کر لے گئے تھے۔ انہوں نے یہاں پر بھی اپنے مخصوص ترنم سے خوب رنگ جمایا تھا جو لوگوں کو ابھی تک یاد ہے اسی دور کی ان کی ایک مقبول عام غزل کے دو اشعار ملا حظہ فرمائیں۔
لطیف پردوں سے تھے نمایاں مکیں کے جلوے مکاں سے پہلے
محبت آئینہ بن چکی تھی وجود بزم جہاںسے پہلے
اٹھا جو مینا بدست ساقی رہی نہ کچھ تاب ضبط باقی
ہر ایک مے کش پکاراٹھایہاں سے پہلے یہاں سے پہلے
1946ءمیں شکیل بدایونی ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی تشریف لے گئے۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پورا بمبئی امڈ آیااسی مشاعرے میں مشہور فلمساز و ہدایتکار اے آر کاردار بھی تھے۔ انہوں نے ان کو سنا تو بڑے متاثر ہوئے اور انہوں نے ان کو اپنی فلموں کے لئے گیت لکھنے کی پیشکش کی جو انہوں نے فوراََ قبول کر لی ۔ شکیل بدایونی نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اوع مستقل طور پر فلمی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ نوشاد جیسا موسیقار انہیں ملا جو نہ صرف یہ کہ بہتریں موسیقار تھا بلکہ بہترین انسان بھی تھا۔ ان کو بمبئی میں نیا نیا ماحول ملا تو کچھ گھبراہت ہوئی مگر ان کو نوشاد جیسا غمخوار اور مونس مل گیا۔ جس نے ہر قدم پر ان کی مدد کی اور ان دونوں کی دوستی مرتے دم تک قائم رہی۔ شکیل بدایونی نے سب سے پہلے فلمساز و ہدایت کار کاردار کے گیت تحریر کئے۔ ان کی پہلی ہی کاوش بے حد کامیاب رہی۔ اس فلم کا ہر گیت مقبول ہوا۔ نوشاد نے ان گیتوں کی دھنیں مرتب کی تھیںجو اپنے فن میں یکتا اور بڑے تجربہ کار تھے۔ اس فلم کے یہ گیت بے حد پسند کئے گئے۔
ہم درد کا فسانہ دنیا کو سنا دیں گے۔ (شمشاد بیگم اور ساتھی)
افسانہ لکھ رہی ہوں دل بے قرار کا ۔ (اومادیوی)
بے تاب ہے دل درد محبت کے اثر سے۔(ثریا ،روما دیوی )