تازہ تر ین

”صدر کے خطاب میں ہنگامہ،اسمبلی کے باہر اسمبلی،یہ کیسی جمہوریت ہے“ نامورتجزیہ کار ضیاشاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ صدر پاکستان کا پارلیمنٹ کے”مشترکہ اجلاس“ سے خطاب، آئین کا ایک تقاضا ہے۔ صدر مملکت کو پارلیمنٹ اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس سے ایک مرتبہ خطاب کرنا پڑتا ہے اس اجلاس میں صدر نے بالعموم قومی امور پر بات چیت کی اورکشمیر سمیت ملک کو درپیش دیگرمسائل کا بھی ذکر کیا۔ ان کی گفتگو میں کوئی بھی ایسا نقطہ نہیں تھا جس پر اپوزیشن واویلا مچائے۔ حکومت اور اپوزیشن کو مل کر بہتری کا ماحول بنانا چاہئے۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ میں کورم مکمل نہیں ہوتا اور سینٹ میں وزراءجاتے نہیں۔ اسی طرح وزیراعظم بھی دیگر مصروفیات کی بنا پر ہاﺅس میں نہیں آتے۔ پارلیمنٹ میں ایک تہائی ارکان کا موجود ہونا ضروری ہے۔ کورم مکمل نہ ہونے پر اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے۔ ارکان اسمبلی کو آنے جانے کا خرچہ، تنخواہوں کے علاوہ دیا جاتا ہے۔ یہ ارکان کروڑوں، اربوں کا خرچہ کر کے اسمبلی تک پہنچتے ہیں۔ اتنی تگ و دو کے بعد پارلیمنٹ تک پہنچنے کے باوجود وہ پارلیمنٹ آنے کی زحمت نہیں کرتے تو یہ شرمناک بات ہے یہ قوم کی نمائندگی کس طرح کریں گے۔مشترکہ اجلاس میں صدر مملکت نے کوئی متنازع بات ہی نہیں کی اس پر اپوزیشن خصوصاً جمشید دستی نے خبروں میں رہنے کے لئے بہت ہنگامہ کیا۔ صدر مملکت سادہ لوح انسان ہیں۔ ان کے اختیارات محدود ہیں۔ ان کا انتخاب سیاسی جماعت کرتی ہے اس لئے وہ اپنی جماعت کے لئے سافٹ کارنر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن والوں نے اسمبلی کے باہر اسمبلی لگا کر تماشا بنایا۔ ایک اسمبلی اندر تھی ایک اسمبلی باہر لگائی گئی۔ اس سے صرف میڈیا کوریج کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ عوام کے مسائل بہت ہیں، بجلی، پانی، گیس، ٹیکس، آمدن، اخراجات، قرضوں کا بوجھ، گڈ گورننس کا فقدان، کرپشن، سفارش، رشوت ستانی جیسے ملک کے بڑے بڑے مسائل نظر انداز کئے جا رہے ہیں۔ سیاستدانوں کو چاہئے کہ اسمبلی کے اندر بیٹھ کر عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اپوزیشن والوں کو گلہ ہے کہ اسمبلی کے اندر انہیں موقع نہیں دیا جاتا، اس لئے باہر اسمبلی لگانا پڑی۔ تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس و قت عملاً امریکہ کی حکومت ہے۔ وہاں کے الیکشن میں دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگائے اس پر امریکہ بہادر نے دونوں کو آدھی آدھی حکومت تھما دی جس کی وجہ سے افغانستان میں ”چوں چوں کا مربہ بنا ہوا ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ دونوں کی بھارت سے بڑی دوستی ہے۔ اس لئے وہاں بھارت کی خفیہ ایجنسی کا بہت رول ہے۔ انہوں نے پاکستانی بارڈر کے ساتھ ساتھ قونصل خانے بنا رکھے ہیں۔ افغانستان میںدرحقیقت امریکی حکومت موجود ہے اور افغان صدر کی حکمرانی ایوان صدر سے باہر ہے ہی نہیں۔انہوں نے کہا کہ نہال ہاشمی نے استعفیٰ تودے دیا ہے لیکن ان کی زبان مناسب نہیں تھی۔ شاید نشے کی حالت میں ایسا بیان دے ڈالا۔ وہ وکیل ہیں۔ انہیں آئین اور قانون کا پتا ہونا چاہئے۔ عدالت میں پیش ہونے اور رخصت ہونے کے ضابطے تو جانتے ہوں گے۔ اگر وہ نشے میں نہیں تھے تو شاید ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ نوازشریف کو فوراً ان کے خلاف ایکشن لینا پڑا جبکہ عدالت نے نوٹس بھجوا دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور لگتا ہے کہ نہال ہاشمی شدید پکڑ میں آنے والے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا ہے کہ لگتا ہے حکومتی ارکان ججوں کو دھمکا رہے ہیں۔ ان کا اشارہ بعض وفاقی وزراءکی طرف ہے۔ اکثر وفاقی وزراءتو خاموش رہتے ہیں لیکن گنتی کے چند وزراءنے اپنے الٹے سیدھے بیانات سے کسی کو خوش کرنا اپنا فرض سمجھ رکھا ہے۔ رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا صدر مملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک ایسی کرپٹ حکومت کی تعریف کی جس نے کسانوں کو بے موت مار دیا، عدلیہ کو دھمکایا، فوج پر انگلیاں اٹھائیں،اس پر احتجاج تو بنتا تھا۔ عدلیہ اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ جے آئی ٹی لگتا ہے ”نورا“ کشتی کھیل رہی ہے عدلیہ کو علیحدہ کر کے جے آئی ٹی بنائی گئی ہے۔ یہ نورا کشتی ہے یہ اس لئے بنائی گئی ہے کہ نوازشریف آسانی سے نکل جائیں ۔ عدلیہ نے اپنی جان چھڑانے کے لئے جے آئی ٹی بنا دی۔ حکومت کو اس سے بہت بڑا دھچکا لگے گا۔ نوازشریف کے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) تباہ ہو جائے گی۔ پی پی پی کو سندھ مل بھی گیا تھا انہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ زرداری اور بلاول دونوں پنجاب میں بھی ناکام ہو چکے ہیں اس لئے وہ ملک سے چلے گئے ہیں عمران خان عوامی لیڈر ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں نااہل قرار دیئے جانے کے فیصلے کو قوم نہیں مانے گی اوراس پر ردعمل آ سکتا ہے ۔عمران، نوازشریف اور زرداری سب بری ہو جائیں گے اور اگلا الیکشن یہ سب مل کر لڑیں گے۔ ایک اور این آر او سامنے آ جائے گا اور کوئی بھی نااہل نہیں ہو گا۔تجزیہ کار مکرم خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ حالات بہتر بنانے کی ہر سطح پر کوشش کی حتیٰ کہ ہمارے آرمی چیف نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان میں ”سی آئی اے“ اور ”را“ کا قبضہ ہے جبکہ افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ وہاں سے امریکہ، بھارت دیگر ممالک کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں اور پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگا رہے ہیں۔ پاکستان کا ایک اہم ادارہ ان کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔ اسی لئے وہاں ہونے والے دھماکوں کی مذمت سب سے پہلے آرمی چیف کرتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ وہاں سے پہلا الزام ہماری جانب آئے گا۔ اشرف غنی نے دھماکے کے بعد واضح کہا کہ یہ حقانی گروپ کی کارستانی ہے۔ وہ دنیا میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حقانی کو پاکستانی فوج کی سرپرستی حاصل ہے۔ بھارت اب افغانستان سے آسانی سے نہیں نکلے گا۔ امریکہ بھی وہاں سے نکلنے کا ڈرامہ رچاتا رہتا ہے۔ یہ دونوں ملک وہاں سے نہیں نکلنا چاہتے۔ یہ دھماکہ روس سے یورپ جانے والی گیس پائپ لائن کی وجہ سے ہوا۔ اس قدر شدید دھماکہ کسی گروپ یا گروہ کا ہو ہی نہیں سکتا بلکہ وہاں موجود قابض قوتوں نے بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد گاڑی میں رکھ کر یہ دھماکہ کروایا۔پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ پرامن افغانستان، پاکستان کے حق میں ہے لیکن دوسری جانب ایسی صورتحال امریکہ کے حق میں نہیں ۔ امریکہ گلف اور بحیرہ عرب میں موجود ہے۔ اس کے لئے زمینی تحفظ صرف افغان سرزمین پر ہے اسی لئے اس نے وہاںقبضہ قائم رکھنا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain