کابل(آئی این پی، این این آئی) افغان صدرڈاکٹر اشرف غنی نے ایک مرتبہ پھر الزام لگایا ہے کہ افغانستان کو پاکستان کی غیر اعلانیہ جارحانہ جنگ کا سامنا ہے ، ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ پاکستان ہم سے کیا چاہتا ہے، پاکستان کو اس بات پر کس طرح قائل کیا جاسکتا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ان کو اور خطے کو مدد فراہم کرے گا، پاکستان سے امن کے خواہاں ہیں،گزشتہ 2 برسوں کے دوران 11 ہزار غیر ملکی جنگجو داعش میں شمولیت کے لیے افغانستان آچکے ہیں، اگر طالبان امن مذاکرات میں شمولیت میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں دفتر کھولنے کی اجازت دینے کیلئے تیار ہیں تاہم یہ ان کیلئے آخری موقع ہوگا، طالبان کو افغان حکومت گرانے نہیں دیں گے، امن اجلاس کا مقصد دہشت گردی کا مقابلہ اور امن کو یقینی بنانا ہے، پڑوسی ممالک سے مضبوط تعلقات افغان حکومت کی پالیسی ہے، گذشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 150ہوچکی ہے۔ افغان میڈیا کے مطابق کابل میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اشرف غنی نے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ افغانستان کو پاکستان کی غیر اعلانیہ جارحانہ جنگ کا سامنا ہے ، ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ پاکستان ہم سے کیا چاہتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اس بات پر کس طرح قائل کیا جاسکتا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ان کو اور خطے کو مدد فراہم کرے گا۔انھو ں نے کہاکہ پاکستان سے امن کے خواہاں ہیں،امن اجلاس کامقصد دہشت گردی کامقابلہ اور امن کو یقینی بنانا ہے۔اشرف غنی نے کہاکہ،گزشتہ 2 برسوں کے دوران 11 ہزار غیر ملکی جنگجو داعش میں شمولیت کے لیے افغانستان آچکے ہیں،اگر طالبان امن مذاکرات میں شمولیت میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں دفتر کھولنے کی اجازت دینے کیلئے تیار ہیں تاہم یہ ان کیلئے آخری موقع ہوگا،طالبان کو افغان حکومت گرانے نہیں دیں گے۔طالبان امن قائم کریں یا نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہیں، قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے طالبان کے پاس یہ آخری موقع ہے ۔وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔اشرف غنی نے کانفرنس میں بتایا کہ گذشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 150ہوچکی ہے جبکہ 300 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا، جن میں سے بیشتر جلے ہوئے اور دھماکا خیز مواد سے متاثر تھے۔اس سے قبل حکام نے واقعے میں 90 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی جبکہ اشرف غنی نے ہلاکتوں میں اچانک اس قدر اضافے کی وجہ نہیں بتائی۔امن کانفرنس کے موقع پر کابل میں سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گیے تھے، جس میں کابل کی سڑکوں کو بکتر بند گاڑیاں موجود تھیں جبکہ اس موقع پر فضائی نگرانی بھی کی گئی تاہم افغان خبر رساں ادارے خاما کی ویب سائٹ کے مطابق سخت سیکیورٹی کے باوجود کابل میں بھاری سفارت خانے کی حدود میں ایک راکٹ آکر گرا جو دھماکے سے پھٹ گیا لیکن اس واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو دفترکھولنے کی مشروط پیش کش کرتے ہوئے کہاہے کہ طالبان کو افغان حکومت گرانے نہیں دیں گے، پاکستان سے امن کے خواہاں ہیں۔ قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے طالبان کے پاس یہ آخری موقع ہے، پڑوسی ممالک سے مضبوط تعلقات افغان حکومت کی پالیسی ہے۔ گزشتہ ہفتے دارالحکومت کابل میں ہونے والے دہشت گردانہ بم حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 150 سے تجاوز کر گئی ہے۔ 150سے زائد افغان بیٹے اور بیٹیوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ 300 سے زائد زخمیوں کو ہسپتالوں میں لایا گیا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغانستان میں مصالحتی عمل اور امن کے قیام کے لیے 25 ممالک کا اجلاس کابل میں منگل کو شروع ہوگیا ہے ۔کانفرنس کا مقصد ”وسیع تر کثرتِ رائے“ پیدا کرنے کی نئی کوشش ہے، تاکہ ملک کے مہلک تنازعے کا خاتمہ لایا جاسکے، اور سرحد پار دہشت گردی سے مل کر نبردآزما ہوا جا سکے۔حکومت نے امن کی اپنی نئی علاقائی کاوش کو ”کابل عمل“ اجلاس کا نام دیا ہے، لیکن پہلا اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب قومی سکیورٹی بدتر ہوتی جا رہی ہے اور سیاسی تناو¿ بڑھتا جا رہا ہے۔ کابل پراسیس کے نام سے اجلاس میں پاکستان اور بھارت بھی شریک ہیں۔اجلاس میں تسنیم اسلم اور ڈی جی افغانستان منصور احمد خان پر مشتمل 2 رکنی وفد پاکستان کی نمائندگی کررہا ہے۔سفارتی ذرائع کے مطابق اجلاس میں اقوام متحدہ، نیٹو اور یورپین یونین کے نمائندے بھی شریک ہیں،اجلاس میں افغان مصالحتی عمل اور افغانستان کے اندر امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے اقدامات پر غورکیا جارہارہے،کابل پراسیس میٹنگ میں سینٹرل ایشیائی ممالک اور ماسکو کانفرنس میں شریک تمام ممالک شرکت کررہے ہیں جبکہ اجلاس میں طالبان سے مذاکرات پر بھی غور کیا جائے گا۔افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس کا باقاعدہ آغاز کیا، اجلاس کے شرکاءنے کابل اور برطانیہ حملے کے متاثرین کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی،اس موقع پر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ امن اجلاس کامقصد دہشت گردی کامقابلہ اور امن کو یقینی بنانا ہے، انہوں کہا کہ طالبان امن مذاکرات میں شرکت کریں تو حکومت انہیں دفتر کھولنے کی جگہ فراہم کرے گی۔افغان صدر نے کہا کہ قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے طالبان کے پاس یہ آخری موقع ہے، اشرف غنی نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے مضبوط تعلقات افغان حکومت کی پالیسی ہے۔افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ گزشتہ ہفتے دارالحکومت کابل میں ہونے والے دہشت گردانہ بم حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 150 سے تجاوز کر گئی ہے۔ غنی کے مطابق 150سے زائد افغان بیٹے اور بیٹیوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ 300 سے زائد زخمیوں کو ہسپتالوں میں لایا گیا۔ قبل ازیں افغان حکام نے اس حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 90 بتائی تھی۔ادھر میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ کے ترجمان، احمد شکیب مستغنی نے میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ حکام اس عزم پر قائم ہیں کہ داخلی چیلنجوں کو اپنی کوششوں پر حاوی نہ ہونے دیا جائے۔مستغنی کے الفاظ میں اور ہمارے سکیورٹی کے اداروں نے بھی حکومت کو یقین دلایا ہے کہ سکیورٹی کے ضروری اقدامات کیے جائیں گے، تاکہ اجلاس کی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔تاہم، گذشتہ ہفتے کے واقعات نے افغان امن اور سلامتی کے فروغ کے لیے کلیدی اقدامات پس پشت ڈال دیا ہے۔دو خودکش بم حملوں اور کابل میں حکومت مخالف احتجاج کے نتیجے میں تقریباً 120 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 600 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ خونریزی کا آغاز ٹرک میں نصب دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے ہوا، جو بدھ 31 مئی کو دارالحکومت کے سفارتی علاقے میں واقع ہوا۔حملے کی کسی گروپ نے ذمے داری قبول نہیں کی، لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔