19 جون کو دنیا بھر میں ”سیکل سیل ڈیزیز“ سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ مرض خون کے سرخ ذرات میں ہونے والی خرابی سے ہوتا ہے۔ سیکل سیل موروثی یا جنیاتی مرض مانا جاتا ہے۔ ان مریضوں کے خون کے سرخ ذرات میں موجود ہیموگلوبن عام انسانوں کے ہیموگلوبن کی طرح نارمل نہیں ہوتا۔ اسے ”ہیموگلوبن ایس“ کا نام دیا جاتا ہے۔ ہیموگلوبن خون کے سرخ ذرات میں پائی جانے والی ایک خاص پروٹین ہے جو جسم میں آکسیجن کو ساتھ ملاتی ہے اور اسے تمام جسم کے خلیوں اور ہر حصے میں پہنچاتی ہے۔ ہیموگلوبن کم ہونے سے جسم کی آکسیجن اٹھانے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ ہیموگلوبن اپنی اصل شکل سے ہٹ کر انگریزی حرف S کی طرح نظر آنے لگتا ہے۔ اسی بنا پر اسے سیکل سیل ڈس آرڈر یا سیکل سیل ڈیزیز کا نام دیا جاتا ہے۔
چونکہ یہ موروثی مرض ہے اور پیدائشی طور پر بچوں میں موجود ہوتا ہے اس لئے اس کی علامات بھی بچپن میں ہی نظر آنے لگتی ہیں۔ چونکہ ہیموگلوبن خراب شکل کا ہوتا ہے اسی لیے خون کے سرخ ذرات کی اپنی ساخت بھی خراب ہو جاتی ہے اوروہ وقت سے پہلے ختم ہو جاتے ہیں۔ خون کے سرخ ذرات کے ختم ہونے کی رفتار زیادہ اور بننے کی کم ہو جاتی ہے۔ یوں جسم میں خون کی کمی ”انیمیا“ ہو جاتا ہے۔ انیمیا کی وجہ سے مریض کا سانس پھولنے لگتا ہے، جلد تھکن ہو جاتی ہے، جسم میں درد رہتا ہے، سانس لینے میں مشکل ہو سکتی ہے، سینے پر بوجھ یا درد رہتا ہے، رنگت پیلی ہو جاتی ہے، بچوں میں نشوونما عمر اور وقت کے مطابق نہیں ہوتی، بچے کمزور اورچھوٹے قد کے رہ جاتے ہیں۔ اکثر بچوں کی آنکھیں بھی پیلی ہو جاتی ہیں یا یرقان ہو جاتا ہے۔ مرض کی شدت مختلف مریضوں میں مختلف ہو سکتی ہے۔ شدید حملے کی صورت میں ”ڈیزیز کرائسز“ ہوتا ہے۔ جب دوسری علامات کے ساتھ ہاتھ پیر کی سوزش، انفیکشن، شدید جسم درد اورخون کی نالیوں کی بندش سے فالج ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھار ٹوٹ پھوٹ کا شکار خون کی باریک نالیوں میں پھنس جاتے ہیں اور انہیں بند کر دیتے ہیں اور انہیں بند کر دیتے ہیں۔ اس سے کسی بھی عضو میں خون کی فراہمی رک جاتی ہے اور عضو کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایسا نقصان زیادہ تر گردوں، پھیپھڑوں، تلی اور دماغ کو پہنچتا ہے۔ ایک اور بڑی پیچیدگی سانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں میں موجود خون کی نالیوں میں بلڈ پریشر بڑھنا ہے۔ سیکل سیل ڈیزیز کے تقریباً ایک تہائی افراد کو یہ پیچیدگی ہو جاتی ہے جس سے دل پر کام کا اضافی بوجھ پڑتا ہے اور ہارٹ فیلیر ہو سکتا ہے۔
ایسے مریض بچوں کو ابتدا سے ہی روزانہ فولک ایسڈ دوا لینا پڑتی ہے۔ انیمیا کے باعث ان مریضوں میں قوت مدافعت بھی بہت کم ہو جاتی ہے اور بار بار انفیکشن ہو جاتی ہے اس لئے ا نہیں روزانہ پینسالین بھی لینا ضروری ہوتا ہے۔ ان میں ملیریا یا مچھر کاٹنے سے پھیلنے والی بیماریوں کا رسک بھی زیادہ ہوتا ہے اس لئے ملیریا سے بچاﺅ کی حفاظتی ادویات بار بار لینا پڑتی ہیں۔ کرائسز علامات کی صورت میں آکسیجن تھراپی، درد کم کرنے والی ادویات اور بعض اوقات خون بھی لگانا پڑتا ہے۔ باقاعدہ تصدیق شدہ دوا ہائیڈروکسی یوریا، ڈاکٹر کی نگرانی میں مسلسل دی جاتی ہے۔ اس سے مریض کی علامات کم ہو جاتی ہیں۔
٭٭٭