تازہ تر ین

صبر نہ آزمایا جائے ، سپریم کورٹ نے حکومت کو خبر دار کر دیا

اسلام آباد (آن لائن‘ آئی این پی‘ مانیٹرنگ ڈیسک ) سپریم کورٹ نے پانامہ جے آئی ٹی کی دھمکیوں اور مشکلات سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ میڈیا اورحکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں ، آٹھ لوگ مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کرعدلیہ اور جے آئی ٹی پر تنقید کرتے ہیں، کوئی کچھ بھی کہے اس کی پرواہ نہیں ہے ، آسمان گرے یا زمین پھٹے ہم نے قانون کے مطابق کام کرنا ہے ،عدالتی اختیار کا تعین عوام یا میڈیا نے نہیں کر سکتے بلکہ سپریم کورٹ کے اختیارات کا تعین آئین میں درج ہے، حکومت فوری طور پر جے آئی ٹی کو ہراساں کرنا اور دھمکیاں دینا بند کرے جبکہ عدالت عظمیٰ نے چوہدری شوگر مل کے ریکارڈ سمیت دیگر ریکارڈ میں ایس ای سی پی کی جانب سے مبینہ ٹمپرنگ پرا یف آئی آے کو قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا ہے اور آئی بی کی جانب سے جے آئی ٹی کو مبینہ طور پر ہراساں کر نے کے معاملے پر اٹارنی جنرل کو معاونت کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی ہے ۔پیر کو، جسٹس اعجازافضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بنچ نے جے آئی ٹی کو تحفظات ،دھمکیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی ، سماعت کے دوران تحریک انصاف کے رہنماء فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی کی مخصوص چیزیں لیک کی جا رہی ہیں، سپریم کورٹ کی کارروائی جاری ہے لیکن ایک خاص انگریزی اخبارمیں اس سے متعلق شہہ سرخیاں لگ رہی ہیں، آج ایک اخبار نے تو فیصلہ بھی سنا دیا، اس خبر سے غلط عوامی تاثر جا رہا ہے، اخبار کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ میں نے بھی اخبارمیں خبر پڑھی ہے، لگتا ہے یہ آئی سی جے کا فیصلہ ہے، ہمیں ایسی خبروں سے کوئی فرق نہیں پڑتاجبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ صرف مخصوص نہیں اب تو ہرچیز لیک ہو رہی ہے، ہمیں پتہ ہے اس کا مقصد کیا ہے، جے آئی ٹی نے ہمیں مسائل کا بتایا ہے،بہت سنگین قسم کے الزامات عائد کئے گئے ہیں، ہم اس حوالے سے مناسب حکم جاری کریں گے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسارکیا کہ کیا ریکارڈ میں رد و بدل کا الزام جرم نہیں ہے، ایف آئی آر بھی الزام پر درج کی جاتی ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایس ای سی پی نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔ دفعہ 486 اور دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج ہوتی ہے،اس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ حقائق جانے بغیر بہت کچھ کہا گیا، پہلے بھی کہا تھا کہ آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے ہمیں پرواہ نہیں، کوئی کچھ بھی کہتا رہے ہمیں اس کی پرواہ نہیں لیکن خاموش تماشائی نہیں بنیں گے، چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں، جے آئی ٹی نے ایس ای سی پی پر ریکارڈ میں ردوبدل کا الزام لگایا، ہم آپ سے کافی مایوس ہوئے ہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ آپ نے بطور اٹارنی جنرل کوئی ایکشن لیا ہوگا لیکن آپ نے سیدھا ہی کہہ دیا کہ بادی النظر میں الزامات غلط ہیں جبکہ جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے آئی بی پرالزام لگایا ہے کہ وہ ہراساں کرتے ہیں اور آئی بی نے الزامات کی سیدھے سیدھے تردید کی ہے، اس کے علاوہ ڈی جی آئی بی نے ایک شاندار خط بھی لکھا ہے۔ کیا آئی بی والے ہمارا ڈیٹا بھی جمع کرتے ہیں، کیسے مان لوں کہ میری مانیٹرنگ نہیں ہوتی۔ آئی بی نے اعتراف جرم کرلیا ہے، آئی بی کا کام ریاست کے لئے ہونا چاہیے کسی کی ذات کے لیے نہیں۔ اٹارنی جنرل یہ کیا ہو رہا ہے، کیا آپ ہمیں سمجھائیں گے۔بہت سے سوالات پوچھنے کا وقت آگیا ہے، اب بتانا ہو گا کہ آئی بی کا کام اور مینڈیٹ کیا ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کوائف اکٹھے کرنا کیا آئی بی کا مینڈیٹ ہے، آئی بی کے اکٹھے کئے گئے کوائف لیک ہونے پر کیسے تحقیقات ہونی چاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ وزیر اعظم یا کسی اور کے نہیں وفاق کے نمائندے ہیں، آئی بی کس اختیارکے تحت ہرمعاملے میں اپنی ناک پھنسا رہی ہے۔ یہ سیدھا ہراساں کرنا ہی ہے ،آئی بی کو کس نے اختیار دیا کہ جے آئی ٹی ارکان کے گھر والوں کو ہراساں کرے۔ کیا آئی بی اور کیا ایس ای سی پی، سب رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے معاملہ کی تحقیقات کر سکتا ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آئی بی کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گا؟جسٹس اعجاز افضل نے آئی بی کے معاملے پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ضرورت محسوس کی تو ڈی جی آئی بی کو بھی طلب کریں گے۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کو ریکارڈ ٹمپرنگ معاملے کا جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے جے آئی ٹی کو اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی میڈی سمیت کسی کی باتوں پر کان نہ دھرے، جے آئی ٹی کو دائیں بائیں دیکھنے کی صرورت نہیں، جے آئی ٹی سے عدم تعاون کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، زمین پھٹے یا آسمان گرے قانون کے مطابق چلیں گے خاموش تماشائی نہیں بنے رہ سکتے، چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں، کیا آئی بی ہمارا ڈیٹا بھی اکٹھا کرتی ہے؟ ہم نے کوئی بھرتیاں نہیں کی جے آئی ٹی مقرر کی تھی کس نے اختیار دیا ہے جے آئی ٹی ممبران کو ہراساں کیا جائے، میڈیا اور حکومتی نمائندے منظم مہم چلا رہے ہیں پبلک آفس ہولڈر افراد عدلیہ پر حملہ آور ہو رہے ہیں 8 لو مختلف چینلز سے جے آئی ٹی پر حملہ آور ہیں عدالت صبر کر رہی ہے ہمیں اکسایا نہ جائے۔ عدالت نے اپنے حکم میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف کارروائی کرنے اور عمل درآمد رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ھی ہدیت کی۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال کیا کہ ملک میں وائٹ کالر کرائم، دہشت گردی اور جرائم ختم ہو چکے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی سویلین ایجنسی جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے ججز کے کوائف اکٹھا کر رہی ہے؟ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا آئی بی کی نجکاری کر دی گئی ہے جو پرائیویٹ لوگوں کو خدمات دے رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل آئی بی کی مدت ملازمت میں توسیع ذاتی کام کے لئے کی گئی ہے۔ کیس کی سماعت کو منگل تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں پانامہ عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ حکومت کے8 مختلف لوگ مختلف چینلز پر جاکر جے آئی ٹی پر اعتراض کرتے ہیں، ہم نوٹ کررہے ہیں مناسب فیصلہ جاری کرینگے، ہمارا کام بلا امتیاز قانون کی حکمرانی ہے، جے آئی ٹی کو ہراساں کرنے کا عمل فوری روکا جائے، بصورت دیگر انتہائی ناخوشگوار حکم دینے پر مجبور ہونگے، نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی ادھر ادھر دیکھے بغیر اپنا کام جاری رکھے، لکھنے لکھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پہلے بھی کہا تھا کہ آسمان گرے یا زمین پھٹ جائے، ہمیں کسی کی پرواہ نہیں، خاموش تماشائی نہیں بنیں گے، جسٹس عظمت نے کہا کہ پہلے بھی گالیوںکا نہ تھمنے والا طوفان آیا، ہم قانون کی تنی ہوئی رسی پر چلتے رہیں گے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain