تازہ تر ین

حکومتی ادارے ہمیں جواب دیں کیس کو میڈیاسرکس نہ بنائیں

اسلام آباد(آئی این پی‘ مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے پانامہ کےس کی تحقےقات کے لئے بنائی جانے والی جے آئی ٹی میں ویڈیو ریکارڈنگ کے خلاف حسین نواز کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ کے معاملے کا تفصیلی جائزہ لیاجے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والوں کی آڈیوویڈیو ریکارڈنگ ہوسکتی ہے آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کو عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔آڈیو ویڈیوریکارڈنگ ٹرانسکرپٹ کی تیاری کے لیے ہے فوٹو لیک میں ملوث ذمہ دار کا تعین ہوچکا کیس کو میڈیا ٹرائل نہ بنایا جائے۔اخبار پڑھ کر لگتا ہے اٹارنی جنرل کی ضرورت نہیں حکومتی ادارے جواب کے بجائے نیوز کانفرنس کرتے ہیں حکومت اپنے حق میںآرٹیکل چھپواتی ہے ۔تفصیلات کے مطابق منگل کو سپریم کورٹ نے حسین نواز کی پانامہ کےس کی تحقےقات کے لئے بنائی جانے والی جے آئی ٹی میں ویڈیو ریکارڈنگ کے خلاف درخواست پر فیصلہ سنا دیافیصلہ سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے سنایا ۔عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والوں کی آڈیوویڈیو ریکارڈنگ ہوسکتی ہے۔ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کو عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ ٹرانسکرپٹ کی تیاری کے لیے ہے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ تصویر لیک ، تحقیقاتی رپورٹ پبلک کرنے پر اعتراض نہیں۔عدالت نے کہا کہ آئی بی کے معاملے پر تحریری جواب جمع کرائیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل فوٹو لیک پر اپنا جواب جمع کرائیں۔ ویڈیو ریکارڈنگ کے معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا۔عدالت کسی سے بھی خوفزدہ نہیں ۔عدالت نے کہا کہ حکومتی ادارے جواب کے بجائے نیوز کانفرنس کرتے ہیں ۔حکومت اپنے حق میںآرٹیکل چھپواتی ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم یہاں نابالغ تو نہیں بیٹھے ہوئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیس کو میڈیا ٹرائل نہ بنایا جائے۔اخبارپڑھ کر لگتا ہے اٹارنی جنرل کی ضرورت نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے عدالتی کارروائی کو پوشیدہ رکھا جائے۔جے آئی ٹی رپورٹ کو خفیہ رکھیں گے۔ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پرنہیں لائی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ فوٹو لیک میں ملوث ذمہ دار کا تعین ہوچکا عدالت نے فوٹو لیک کے معاملے پر اٹارنی جنرل سے موقف طلب کر لیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ حکومتی ادارے عدالت کی بجائے میڈیا کو جواب دے رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ کیس کو میڈٰیا ٹرائل یا میڈیا سرکس نہ بنایا جائے، یہ مقدمہ عام نہیں بہت بھاری ہے، اس لئے حکومتی ترجمان کو کہا جائے کہ وہ ناپ تول کر بات کریں ، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں لیکن ہمیں کوئی ڈی ریل نہیں کرسکتا، ہمیں معلوم ہے ہمیں کب اور کیا کرنا ہے ،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ حکومت خود اخبارات میں اپنے حق میں آرٹیکل شائع کرواتی ہے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ میرے اوپر بڑی ذمہ داریاں ہیں لیکن میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ عدالتی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ہمیں ایک ہفتے کا وقت دیا جائے تو آئی بی کے معاملے پر ایک ہفتے میں جواب دے سکتے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain