تازہ تر ین

امریکہ پاکستان میں نئی جنگ کی تیاری میں مصروف ،رستم شاہ مہمند کا پروگرام ضیاشاہد کے ساتھ میں انکشاف

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آج کل کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں آڈیو کا وقت تو گزر گیا ہے۔ اب ویڈیو ریکارڈنگ کا دور ہے۔ آج سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے کہ جے آئی ٹی کارروائی کے دوران ویڈیو ریکارڈنگ ہو گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپنے خلاف جانے والی ہر چیز غلط اور حق میں جانے والی ہر چیز درست نظر آتی ہے۔ اس بارے میں لوگوں کے پاس دلائل بھی ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں وہی کچھ کہنا ہے جو حکمران انہیں بریف کریں گے۔ ڈاکٹر رحمن ملک کو ایک وقت میں حدیبیہ پیپرملز کا ایکسپرٹ کہا جاتا تھا۔ ان کا پرانا انداز ہے کہ وہ ہر دو تین جملوں کے بعد حدیبیہ پیپرملز کا ذکر ضرور کرتے تھے ڈاکٹر رحمن ملک تفتیش کے بڑے ماہر ہیں۔ انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سے شروع کیا اور پھر ترقی کرتے کرتے ڈی جی ایف آئی اے تک پہنچے۔ اس کے بعد وہ سیاست میں آئے۔ ان کی بات عام سیاست دانوں سے زیادہ معتبر ہو گی اور ثبوت کے ساتھ ہو گا۔ رحمن ملک صاحب نے کہا کہ میں نے شریف فیملی کو معاف کر دیا ہے۔ اب شاید انہوں نے معافی واپس لے لی ہے۔ اس لئے وہ جے آئی ٹی کے سامنے سب کچھ پیش کرنے جا رہے ہیں۔ بہت کم سیاستدانو ںکو ملک کے مفاد سے غرض ہوتی ہے زیادہ تر اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہیں۔ امریکہ میں اہم شخصیات کی لکھی ہوئی کتابوں کو بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ ہیلری کلنٹن کی لکھی ہوئی کتاب لوگوں میں بہت مقبول ہوئی۔ ان میں اکثر اہم انکشافات ہوتے ہیں۔ ایک مجلس میں بہت اہم شخصیات (بیوروکریٹس) موجود تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ امریکہ میں تو لوگ کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں اور وہ کتابیں دنیا میں مشہور بھی ہوتی ہیں میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنی یادداشت کیوں نہیں لکھتے؟ قدرت اللہ شہاب نے ایوب خان کے ساتھ بہت وقت گزارا تھا۔ ان کی کتاب شہاب نامہ بہت مشہور ہوئی۔ ہمارے ہاں جب کوئی واقعہ بیان کرتا ہے تو اسے کہا جائے کہ اے لکھ کیوں نہیں دیتے تو وہ کہتے ہیں یہ آف دی ریکارڈ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سابق جرنیلوں، افسروں اور ملازموں کی کہانی دیکھ لیں ہر شخص یہاں امیدوار ہے۔ جب تک زندہ ہے۔یہ امیدوار رہتے ہیں، یہ انتظار میں ہوتے ہیں کہ شاید اسلام آباد سے یا راولپنڈی سے کوئی کال آ جائے اور کہیں سفیر، گورنر یا صدر لگا دیا جائے۔ پرانے حکیموں کی طرح یہ اشرافیہ بھی اپنے راز اور اہم باتیں قبر میں لے کر جانا چاہتے ہیں۔ یہ تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہ ملک کے ساتھ زیادتی ہے۔ حقائق کو چھپانا۔ پردہ ڈالنا ایک جرم ہے۔ ہمارا ہر سیاستدان اسی انتظار میں ہوتا ہے اور دیکھتا ہے کہ میرا مفاد کس جانب ہے، اپوزیشن میں ہے یا حکومت کے ساتھ ملتے ہیں۔ سیاستدانوں کے بیان، تقاریر کچھ اور ہوتی ہیں اور پس پردہ کچھ اور ہوتے ہیں میں نے ایسے سیاستدان دیکھے ہیں جو مخالفین کے خلاف تقاریر کرتے ہیں اور اسی رات ان سے مل کر کہتے ہیںکہ وہ تو سیاسی تقریر تھی۔ منافقت ہمارا خانہ خراب کر چکی ہے، ہمارے قومی شعور کا ستیاناس کر دیا ہے۔ سچی بات کڑوی لگتی ہے۔ رحمن ملک صاحب جب وزیر تھے اور ان کو پتا چلا کہ غلط کام ہو رہے ہیں تو انہیں بتا دینا چاہئے تھا۔ انہیں کیا حق حاصل تھا کہ وہ اپنی طرف سے کہیں کہ میں نے انہیں معاف کر دیا؟ یہ ان کی جاگیر کا مسئلہ تو نہیں تھا۔ کوئی ان کے بینک اکاﺅنٹ کا معاملہ نہیں تھا۔ آپ کے پاس ثبوت تھے تو اسے اس وقت منظرعام پر لانا چاہئے تھے۔ ماہر قانون خالد رانجھا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں ہونے والی موجودہ کارروائی میں ہمارے اٹارنی جنرل صاحب بہت مشکل میں ہیں۔ اٹارنی جنرل ملک کا ہوتا ہے۔ وہ حکومت کے نہیں ہوتے۔ وہ حکومت سے ہدایات لے کر کارروائی میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ جو حقائق ان کے پاس ہیں انہیں عدالت میں پیش کر یں۔ تفتیش کے اس مرحلے اٹارنی جنرل کو اپنا رول ادا کرتے ہوئے شفاف طریقے سے تمام کارروائی کا حصہ بننا چاہئے اور تمام ر ثبوت جمع کروانے چاہئیں۔ ہر عہدے کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس پر اس کا اہل بندہ ہی فائز ہو۔ اٹارنی جنرل اگر اپنی اہلیت ثابت نہیں کر پائیں گے تو کیا عدالت انہیں فارغ نہیں کر دے گی۔ اٹارنی جنرل کے پاس عہدہ پاکستان کا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا ہے کہ امریکہ کی یہ دھمکی کوئی نئی نہیں ہے۔ میں ”خبریں“ کے مضمون میں لکھ چکی ہوں کہ اس وقت ہمارے خلاف ایک منظم سازش کی جا رہی ہے۔ اپریل میں اقوام متحدہ میں ایک شدید مذمتی قرارداد پیش کی گئی ہے۔ تجزیہ کاروں نے پہلے ہی پیشگوئی کی تھی کہ پاکستان کے اوپر پھر ڈومور کا ایک اور دور آنے والا ہے۔ ہماری فارن پالیسی بہت کمزور ہے۔ ہمارا فارن منسٹر موجود ہی نہیں ہے ہم پر پہلے بھی ڈومور کا پریشر ڈالا جاتا رہا ہے۔ رحمن ملک صاحب سے جنوری میں میری بات ہوئی تھی اور حدیبیہ پیپر ملزکے حوالے سے میں نے انہیں کہا کہ آپ اپنے ریکارڈ کو منظر عام پر کیوں نہیں لاتے۔ تو انہوں نے کہا کہ میں نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں پولیٹکس نہیں کھیلوں گا۔ میں مفاہمت کی سیاست کروں گا۔ رحمن ملک نے کہا مجھے جو کورٹ کہے گا میں اس کا پابند ہوں۔ رحمن ملک کے پیچھے بھی سیاسی عوامل کارفرما ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شریف فیملی سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ لندن میں کمیونٹیز بٹی ہوئی ہیں۔ ہر بندہ علیحدہ علیحدہ لوگوں کو سپورٹ کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں تحریک انصاف کا بہت زور ہے۔ مسلم لیگ ن کا کم ہے۔ پیپلزپارٹی کا بالکل بھی نہیں ہے۔ سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پہلے سے کہہ رہی تھی کہ پاکستان کے ساتھ معاملات کو دوبارہ دیکھا جائے گا اور اوباما انتظامیہ کے فیصلوں کو آگے نہیں چلایا جائے گا۔ لگتا ہے اب امریکہ پاکستان پر پریشر بڑھائے گا۔ وہ 4 ہزار ٹروپس اور بھیج رہا ہے افغانستان میں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ افغانستان میں داعش اور طالبان کے خلاف مزید ایکشن کرنے جا رہے ہیں۔ اور وہ اب فیصلہ کن جنگ لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ سوچ غلط ہے کہ پاک افغان بارڈر کراس کر کے کوئی پاکستان کے اندر کارروائی کرے۔ آج تک کسی امریکی فورس یا افغان فورس نے پاکستان میں اندر آ کر کسی کو نہیں پکڑا۔ امریکی اتحاد کی مسلسل افغانستان میں ناکامی کو چھپانے کے لئے وہ نت نئے فیصلے کر رہے ہیں۔ امریکہ پندرہ سالوں سے افغانستان میں جنگ لڑ رہا ہے لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا۔ پاکستان کو چاہئے کہ امریکہ کو بتائے کہ دہشت گردی کی وارداتیں افغانستان کی طرف سے پاکستان میں کی جاتی ہیں۔ حقانی نیٹ ورک پاکستان میں نہیں بلکہ اس طرف افغانستان میں ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain