کراچی(خصوصی رپورٹ)عیدالفطر کے بعد سیاسی درجہ حرارت بڑھ جانے کا امکان ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے تو پہلے ہی سے گنتی شروع کردی ۔ ان کی امیدیں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) کی سفارشات سے وابستہ ہیں ۔60دن کی مدت مکمل ونے پر 7 جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ عدالت عظمی کی تین رکنی خصوصی بنچ کو پیش کرے گی۔ جو انتہائی حساس پاناما کیس سے متعلق ہے۔ اپوزیشن کے لئے پاناما کیس کا فیصلہ وزیراعظم نواز شریف کی قسمت اور سیاسی مستقبل کا فیصلہ کردے گا۔ اگر وہ مجرم نکلے تو ملک میں قبل از وقت انتخابات کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔ حکمراں مسلم لیگ (ن) مقابلے کے لئے تیار ہے؟ جے آئی ٹی جس نے اپنی تیسری رپورٹ جمعرات کو عدالت عظمی میں جمع کرائی سوائے حسین نواز کی فوٹو لیک کے جے آئی ٹی نے تحقیقات میں اپنی رازداری کو برقرار رکھا ہے۔ دو بڑے سیاسی حریفوں کے درمیان سیاسی کشیدگی محاذ آرائی کا باعث ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا عید کے بعد اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لانے کا جہاں منصوبہ ہے وہیں مسلم لیگ (ن) بھی جوابی حملے کے لئے پرتول رہی ہے۔ حتمی فیصلہ چاہے نواز شریف کا سیاسی کیریئر ڈبودیتا یا بچالے جاتا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ عید بعد ہماری سیاسی قیادت کی بلوغت کی آزمائش ہوگی۔ اس کا زیادہ تر دارومدار نواز شریف اور عمران خان کے ردعمل اور حکمت عملی پر ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) سیاسی لڑائی کے ذریعہ نظام کو بچا سکتی ہے یا ٹائٹانک کی طرح جہاز ہی غرق کرسکتی ہے۔ انہیں پیپلزپارٹی سے کچھ سبق سیکھنا چاہئے جس نے نظام بچانے کے لئے اپنے وزیراعظم کی قربانی دی۔ پاکستان کی سیاست میں جولائی کی اپنی اہمیت ہے کیونکہ 40 سال پیچھے اسی مہینے جمہوریت ڈی ریل ہوئی۔ بھٹو اور پی این اے اسے بچا سکتے تھے لیکن یہ بھی درست ہےکہ یہ 5 جولائی 1977 ہے اور نہ 12 اکتوبر 1999۔ یہ جولائی 2017 ہے اور سیاست دانوں نے ہی 2014 میں نظام بچایا تھا۔ حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے لئے جوبات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ محاذ آرائی فوجی آمریت کی جانب لے جاتی ہے۔ہم نے ضیا الحق کی 11 سالہ اور پرویز مشرف کی 9 سالہ آمریت کا مشاہدہ کیا۔ اب صورتحال 1977 اور 1999 کے مقابلے میں بدلی ہوئی ہے۔ اس وقت سیاسی بحران ہے اور نہ ہی سویلین اور عسکری اسٹیبلشمنٹ میں محاذ آرائی۔ عدالتی جنگ بھی عدلیہ کے پلیٹ فارم سے ہی لڑی جارہی ہے۔ اگر وزیراعظم شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بحران سے نکل آتے ہیں، وہ جون 2018 تک وزیراعظم رہیں گے۔ اپوزیشن خصوصاً عمران خان مختلف موڈمیں نظر آتے ہیں انہوں نے قبل از وقت انتخابات کے لئے دباﺅ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لیکن اگر پارلیمنٹ حکمراں جماعت سے کسی اور کو وزیراعظم منتخب کرلیتی ہے تو اپوزیشن کے لئے آئینی حدود میں رہتے ہوئے حکومت کو ہٹانا مشکل ہوگا۔ خصوصا جب عمران خان محاذ آرائی کے موڈمیں ہوں۔ قانونی جنگ میں کامیابی کی صورت وہ تنہا پرواز ہی کو ترجیح دیں گے۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف میں محاذ آرائی یقینی ہونے کی صورت میں پیپلزپارٹی کی قیادت اس کے نتائج سے آگاہ ہے ۔ایک بات یقینی ہے کہ پیپلزپارٹی مارچ 2018 سینیٹ انتخابات تک مسلم لیگ(ن) کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہے گی لیکن ساتھ ہی وہ کسی ماورا آئین اقدام کے بھی حق میں نہیں۔ گو کہ جمہوریت کو فوری کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن محاذ آرائی سیاسی بے یقینی کو بڑھادے گی لہذا عید کے بعد کا ممکنہ سیاسی منظر نامہ پریشان کن ہوسکتاہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی کردار کے ذریعہ مسلم لیگ (ن) کو 2014 میں بچایا۔ جب اس طرح کی رپورٹس موجود تھیں کہ 30 اگست 2014کو پارلیمنٹ اور سرکاری ٹی وی پر حملے کے بعد نواز شریف حکومت رخصت کردی جائے گی۔