لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں، تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ خود کش دھماکے انتہائی قابل مذمت ہیں۔ حکومتی ارکان اور تمام ہی سیاستدان ایسے دھماکوں کی مذمت تو کرتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ صرف لوگوں میں بے چینی بڑھتی ہے۔ اصل میں ابھی تک دہشتگردوں کی نرسریاں مکمل طور پر تباہ نہیں کی جا سکیں۔ خوشخبری یہ ہے کہ پاک افغان بارڈر پر دیوار بنانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ پاک افغان بارڈر کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک نظریاتی لکیر ہے۔ اسی طرح مشرقی بارڈر بھی ایک نظریاتی لکیر ہے۔ ہمارے کچھ سیاستدان اسفند یار ولی وغیرہ صاف کہتے ہیں کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے۔ ان کا قول ہے کہ یہاں سے آنے والوں کو مہاجر نہ کہیں۔ ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر باجوہ نے ایک مرتبہ مجھے خود بتایا تھا کہ ڈیورنڈ لائن پر واقع کچھ دیہات ایسے ہیں جن کے درمیان سے یہ لائن گزرتی ہے۔ کچھ گھر اُس جانب اور کچھ گھر پاکستان میں آتے ہیں۔ جمعة الوداع کے موقع پر دہشتگردی کا ایسا واقعہ رونما ہونا عجیب بات ہے۔ حالانکہ وہ خود کو زیادہ مضبوط مسلمان کہتے ہیں اور داڑھیاں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ ہمارے دین میں تو اس کی گنجائش نہیں ہے کہ کسی معصوم کی جان لے لی جائے۔ یہ جنگ اصل میں ہمارے اساتذہ، سکالرز اور مذہبی رہنما لڑ سکتے ہیں۔ یہ دہشتگرد اسلام کے نام پر پیدا ہو رہے ہیں۔ انہیں صرف مذہبی سکالرز کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے سربراہ میجر جنرل(ر) ناصر جنجوعہ سے میری بات ہوئی نقشہ سامنے رکھ کر میں نے ساڑھے تین گھنٹے ان سے بات چیت کی۔ میں نے آف دی ریکارڈ ان سے پوچھا کہ ان 20 نکات پر کتنا عملدرآمد ہو چکا ہے اور کتنوں پر ہونا باقی ہے۔ اس میں 8نکات ایسے ہیں کہ اس پر ابھی تک عملدرآمد ہو ہی نہیں سکا۔ ابھی اس پر بہت کام ہونا باقی ہے۔ ہماری فوج بہت مضبوط ہے لیکن خارجہ پالیسی میں بہت کمزوریاں ہیں۔ ہم ابھی تک پوری دنیا میں اپنا اصل مو¿قف پہنچا ہی نہیں سکے۔ عالمی رائے عامہ کواس پر راضی کرنا تھا کہ ہم تو خود دہشتگردی کا شکار ہیں۔ ہم دہشتگرد کس طرح ہو سکتے ہیں۔ اخباروں میں یہ بات چھپ چکی کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے امریکہ تعلقات پر کوئی کمنٹس دینے پر انکار کر دیا ہے۔ لہٰذا پاک امریکہ تعلقات کا معاملہ معلق ہے۔ ڈرون حملوں پر بیان آیا ہے کہ ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔ ہر دفعہ ڈرون حملے کے بعد یہ پیغام آتا ہے کہ آئندہ اسے برداشت نہیں کریں گے۔ نواز شریف ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ایک مضبوط وزیراعظم بھی ہیں۔ بھٹو نے بھی وزارت خارجہ اپنے پاس رکھی ہوئی تھی۔ ان کا رول بڑا دبنگ تھا۔ عالمی سطح پر بھی اور بھارت کے معاملے پر بھی وہ بہت دبنگ بات کرتے تھے اسی لئے شملہ معاہدہ بھی کرنا پڑا۔ نواز شریف کے ذہن میں بھی یہی بات ہے کہ بھٹو کی طرح وزارت خارجہ اپنے پاس رکھنا ضروری ہے۔ کلبھوشن یادیو کی آرمی چیف کو رحم کی اپیل کرنا ایک قانونی نقطہ کے مطابق ہے جب یہاں سے ان کی اپیل مسترد ہو گی تو وہ سپریم کورٹ میں جا سکتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ واردات کا اعتراف کیا جائے اور ساتھ ہی رحم کی اپیل کر دی جائے۔ ایسی اپیلوں پر کوئی معاف نہیں کرتا۔ کلبھوشن کا جرم کسی ایک فرد کے خلاف نہیں ہے جس کا خون بہا ادا کیا جا سکے۔ یہ ایک مکمل سیریز کے ساتھ جرم کی داستان ہے۔ اس کے اعترافی بیان کودیکھ کر ویسے ہی خوف آتا ہے۔ میڈیا میں ایک ٹرینڈ یہ چل رہا ہے کہ نیپال سے اغوا ہونے والے ریٹائرڈ کرنل کے بدلے میں کلبھوشن کو دے کر انہیں لے لیا جائے۔ یہ ایک لایعنی بات ہے۔ خود قبول کر رہا ہے کہ اس نے دہشتگردی کروائی۔ رقم تقسیم کی۔ دہشتگردوں کو آلات فراہم کئے۔ ہمارے کرنل (ر) صاحب تو نوکری کی درخواست دینے کے بعد اس سلسلے میں وہاں گئے۔ وہ کھٹمنڈو گیا اور اسے پکڑ لیا نہ اس سے بم برآمد ہوا نہ کوئی اور اسلحہ، نہ ہی کسی قسم کی کارروائی کا انہوں نے اعتراف کیا ہے۔ ان کا معاملہ کلبھوشن سے ملتا ہی نہیں۔ لگتا ہے پی آئی اے کو اتنا بدنام کیا جا رہا ہے کہ اسے کوئی مستقبل میں خریدنے کی کوشش ہی نہ کرے۔ پی آئی اے کا عروج کا زمانہ مجھے یاد ہے یہ دنیا کی ممتاز ایئر لائنز میں تیسری بڑی ایئر لائن تھی۔ سابق گورنر پنجاب پی پی پی کے سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ سیاست میں بڑی بڑی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ یہ ایک ہیلتھی عمل ہے۔ کرپشن کا معاملہ ہمارے ملک میں بہت اجاگر ہو گیا۔ قوم چاہتی ہے کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کی کرپشن کا حساب لیا جانا چاہیے۔ پی پی پی دور میں ہی 5 سال گورنر رہا۔ آصف زرداری نے گیارہ سال جیل بھگتی۔ ان کی زبان کاٹی گئی۔ رانا مقبول اس کیس میں ابھی تک مفرور ہے۔ ان کے وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف ابھی تک کیس بھگت رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن والے کوئی مقدس گائے ہیں، مشرف سے معافی مانگ کر باہر چلے گئے۔ پانامہ کا مقدمہ عمران خان اور نواز شریف کے درمیان نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ 184/3 کے تحت یہ مقدمہ لے لیا۔ پی پی پی نے الیکشن کمیشن میں بھی درخواست دی ہوئی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس معاملے کو خود لیا۔ ریاستی معاملات عوام کے ٹیکسوں سے چلتے ہیں۔ ان ٹیکسوں کے امین ملک کے چیف ایگزیکٹو ہوتے ہیں۔ امین اور صادق ہونا ہمارے آئین کا تقاضا ہے۔ موجودہ کیس میں نواز شریف کے فرار ہونے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ قطری خط کو پانچوں ججوں نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ آج میڈیا بہت طاقتور ہے۔ کوئی بھی سیاسی بیان یا تقریر چند منٹوں میں وائرل ہو جاتی ہے۔ اب حقائق کو چھپانا اتنا آسان نہیں ہے۔ نواز شریف کی پرانی روش ہے کہ سامنے والے کی اتنی قیمت لگاﺅ کہ انکار کی گنجائش ہی نہ رہے۔ پی پی پی کی محترمہ بینظیر بھٹو نے جمہوریت کی خاطر شہادت قبول کی۔ سیف الرحمان گڑ گڑا کر رویا کہ اب ہم سیاسی مخالفت میں مقدمات نہیں بنائیں گے۔ نواز شریف کے خلاف پنجاب میں مشترکہ اتحاد بنے گا۔ اگر یہ خانہ جنگی کروائیں گے تو یہ مودی کے یار ہیں۔ پاکستان کےلئے یہ خوش آئند بات نہیں ہے۔ ان کے اثاثے پہلے ہی باہر ہیں۔ انہیں وہ جوتیاں پڑیں گی کہ یاد رکھیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے فیصلے عوام کی طاقت ہے۔ اب گلو بٹوں کی بات اور بدمعاشی ہرگز نہیں چلے گی۔ پی پی پی پھانسی پر چڑھنے والی ہے۔ معافی مانگنے کی عادت ہمیں نہیں ہے۔ ہمارے جو ساتھی پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جا رہے ہیں وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ہم یوتھ میں سے نئی طاقت اور قیادت کو آگے لائیں گے۔ بلاول بھٹو خود یوتھ ہے۔ اپنی ماں کا وارث ہے۔ اس کی سیاست لے کر آگے آیا ہے۔ یوتھ کی 70 فیصد قوت اس کے ساتھ ہے۔ ہم ہر صوبے میں فتح حاصل کریں گے۔