لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ 5 جولائی کی اصل حیثیت برقرار ہے، اس دن جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ جنرل ضیا نے ذوالفقار بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا۔ چشم دید گواہ ہوں کہ اس وقت پاکستان قومی اتحاد جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود تھے، انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب کی کوششوں سے دونوں طرف مذاکرات کئے گئے۔ اس وقت خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ ”اتفاق رائے ہو گیا بھٹو نے کہا کہ جن سیٹوں پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہو ان پر دوبارہ انتخابات کرانے کو تیار ہوں۔“ پھر آج تک صیغہ راز میں ہے کہ اچانک ذوالفقار علی بھٹو مذاکرات کو نامکمل چھوڑ کر 7 ملکوں کے دورے پر چلے گئے۔ بھٹو سے کچھ لوگوں نے جنرل ضیا کے بغاوت کر جانے کے خدشے کا اظہار بھی کیا تھا جس پر انہوں نے کہا کہ ”یہ بندر“ بھٹو کی واپسی پر ضیاءالحق نے حکومت پر قبضہ کر لیا کیونکہ معاہدے کی تفصیل و تکمیل نہیں ہوئی تھی، دوبارہ انتخابات کی تاریخ نہیں آئی تھی اسی دوران ضیاءالحق نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جس کے بعد طویل مارشل لاءکا دور شروع ہوا۔ مریم نواز کو وزیراعظم کی بیٹی ہونے کی وجہ سے میڈیا نے 5 جولائی سے زیادہ اہمیت دی۔ مریم نواز کی پیشی بھٹو کی حکومت کو بزور قوت ختم کرنے اور مارشل لاءکے نفاذ سے بڑا واقعہ نہیں ہے۔ مریم نواز 3,2 بار اپنا بیان تبدیل کر چکی تھی جس کی وجہ سے جے آئی ٹی نے بلایا تھا۔ پہلے ان کا نام ”مریم صفدر“ ہوتا تھا پھر خبریں آئیں کہ لندن میں قیام کے دوران انہوں نے سفارتخانے سے رجوع کر کے اپنا نام تبدیل کر کے ”مریم نواز“ رکھ لیا ہے۔ اس زمانے میں یہ بھی مشہور تھا کہ ان کے اپنے شوہر کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی سیاست سے اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی بیٹی کی عزت کرتا ہوں۔ سب بیٹیوں کا بہت عزت و احترام کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی سیاسی پوزیشن ایسی ہے جیسی بے نظیر کی اپنے گھر میں تھی۔ ان کے بھی مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو دو بھائی تھے لیکن ذوالفقار بھٹو نے ہمیشہ اپنی بیٹی کو اپنا سیاسی وارث سمجھا۔ وزارت خارجہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر محترمہ کو تربیت دلوائی اور ہر غیر ملکی دورے پر اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر جاتے تھے کبھی بھی کسی بیٹے کو ساتھ لے کر نہیں گئے۔ پھر مرتضیٰ بھٹو نے جو راستہ اختیار کیا دہشتگردانہ کارروائیوں کو فروغ دیا، خود جہاز اغوا کر کے کابل بھی پہنچایا اسی سلسلے میں کچھ عرصہ کابل میں بھی رہے ان کے دوست راجہ انور بھی سرکردہ رہنما تھا جنہوں نے مرتضیٰ سے اختلاف کے بعد ان کے بارے میں کتاب لکھی جس کا اُردو میں ترجمہ ”دہشتگرد شہزادہ“ کے نام سے ہوا۔ بھٹو کی طرح نوازشریف نے بھی اپنے صاحبزادوں کے بجائے صاحبزادی کو اپنا سیاسی وارث رکھا۔ حسین نواز کافی عرصہ یہاں رہے، جاتی امراءمیں میڈیکل یونیورسٹی و ہسپتال ان کی نگرانی میں بنا لیکن نوازشریف نے کبھی ان کو سیاسی وارث کے طور پر پروموٹ نہیں کیا۔ خود مریم نواز نے مجھے بتایا تھا کہ ”میں والد کے سب سے زیادہ قریب ہوں، وہ میرے ساتھ تمام معاملات زیر بحث لاتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ نوازشریف اپنے بعد مریم نواز کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیاسی وارث کے طور پر مریم نواز کے لئے نوازشریف آئیڈیل ہیں۔ وہ والد کے اقتدار کی روشنی میں خود کو وزیراعظم دیکھ رہی ہیں۔ خاندان و پارٹی میں اس کی مخالفت موجود ہے لیکن نوازشریف نے کبھی نہیں چھپایا کہ وہ مریم نواز کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ جوڈیشل اکیڈمی کے باہر مریم کی میڈیا سے گفتگو کو اس انداز میں لینا چاہئے کہ وہ والد سے والہانہ پیار کرتی ہیں اور سیاسی جانشین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شریف خاندان اوار نون لیگی رہنماﺅں سے گزارش ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے عدالتی فیصلے کا انتظار کریں، جے آئی ٹی پر تنقید اور ان کے خلاف دھمکی آمیز رویہ مناسب نہیں۔ جے آئی ٹی میں عدالت کے نامزد سرکاری اہلکار ہیں جن کو مخصوص سوالات کے جوابات حاصل کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شریف فیملی جے آئی ٹی کے پیچھے ڈنڈا لے کر یوں پڑی ہے جیسے سارا ظلم یہ ہے۔ نوازشریف اتنی معصومیت سے کہتے ہیں کہ میں نے جے آئی ٹی سے پوچھا کہ ”پوچھنا کیا چاہتے ہو“ ایسے بیانات نہیں دینا چاہئیں ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ نوازشریف ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادی نے جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے وہ مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی معاملہ بگڑ جاتا تھا تو پیپلزپارٹی دور میں رحمان ملک اور نون لیگ کے دور میں اسحاق ڈار کو معاملہ سلجھانے والا سمجھا جاتا ہے۔ اسحاق ڈار پڑھے لکھے، شائستہ و ٹھنڈے دل و دماغ کے آدمی ہیں لیکن چند روز قبل جب ان کو جے آئی ٹی پر گرجتے و برستے دیکھا تو اپنے کانوںپر یقین نہیں آیا۔ ڈار صاحب اس میں کیا قیامت آ گئی وہ آپ سے سوال پوچھیں گے آپ جواب دے دیں اور پھر عدالتی فیصلے کا انتظار کریں۔ اسی ملک میں میں نے شاہی قلعہ میں 3 دن مار کھائی اور 14 دن گزارے وہاں ایک منٹ گزارنا بڑا مشکل تھا لیکن میں نے کبھی بھٹو پر تنقید نہیں کی، اس کو بنیاد بنا کر کسی کو گالی نہیں دی، کسی کے خلاف قلم نہیں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر کی بھی خواہش تھی اب زرداری نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ آصفہ سیاست کو آگے بڑھائے گی۔ بلاول سے زیادہ پرامید نہیں یا پھر آپس میں خیالات نہیں ملتے۔ بلاول تھوڑا جذباتی جبکہ زرداری مفاہمت، جوڑ توڑ کی سیاست اور مطلب و فائدے کے لئے مخالف سے بھی مذاکرات کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ مریم نواز سرکاری افسر نہیں، پیشی پر آنے کے لئے اتنا پروٹوکول اور ایس پی کا سلیوٹ مارنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ بحیثیت ملزم پیشی کے لئے آتی تھیں۔ پورا اسلام آباد لاک ڈاﺅن کر دیا گیا۔ شریف خاندان کو پہلی بار منی لانڈرنگ کیس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان بنی گالہ میں ہیں جس کو گرفتار کرنا ہے کر لے۔ الیکشن کمیشن میں اپنا جواب جمع کرا دیا ہے اب فیصلہ انہوں نے کرنا ہے۔ ایک ہی کیس عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن دونوں جگہ پر چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بنچ تشکیل دیدیا ہے 11 تاریخ کو سماعت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کبھی اقتدار میں رہے نہ ہی کبھی قومی خزانہ ان کی دسترس میں رہا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ کرکٹ کھیلتے تھے، انہوہں نے لندن میں کرکٹ کھیلی وہاں سے پیسے ملے تو اپارٹمنٹ خرید لیا پھر اس کو فروخت کر کے پیسہ پاکستان لے آئے۔ ان کی تعریف کرنے کے بجائے الٹا ان پر کیس ڈال دیا۔ انہوں نے کہا کہ نون لیگ کنفیوژ ہے، ان کو جے آئی ٹی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے کا نقصان پہنچنا شروع ہو چکا ہے۔ مریم نواز کی پیشی پر سینئر رہنما چودھری نثار، پرویز رشید، ظفر الحق، رانا تنویر وغیرہ میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ طلال چودھری، دانیال عزیز کا سٹیٹس الگ ہے وہ لیڈر شپ کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما نوید چودھری نے کہا ہے کہ بے نظیر کے ساتھ مریم نواز کا موازنہ کرنا ہی غلط ہے۔ محترمہ وزیراعظم رہیں اور اس کے بعد بھی بچوں کے ساتھ جے آئی ٹیز اور عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں۔ مریم نواز کی پیشی نون لیگ کی انتخابی مہم دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی سے جو باہر آتا ہے پوچھے گئے سوالات کے بجائے الٹا اپنا سوال بتاتا ہے کہ میں نے یہ کہا۔ یہ جے آئی ٹی سے سوال کر ہی نہیں سکتے۔ پانامہ لیکس کے ذریعے الزام تو پہلے ہی لگ چکا ہے۔ مریم نواز کے بیانات میں تضادات کا سوال ہے۔ نون لیگ نے فیصلے سے پہلے ہی شور مچا رکھا ہے۔ ان کے ساتھ اتنا ظلم ہو رہا ہے کہ مریم نواز 13 گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ پیشی کے لئے آتی ہیں۔ خاتون ایس پی مریم نواز کو پینسل اٹھا کر دیتی ہے۔ حکمران شہنشاہ بنے بیٹھے ہیں۔
