اسلام آباد (خصوصی رپورٹ )پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون میں قومی احتساب کمیشن کے دائرہ کار اتفاق نہ ہو سکا اپوزیشن جماعتوں نے عسکری اداروں اور عدلیہ کے بھی مجوزہ قومی احتساب کمیشن کے دائرہ کارمیں لانے کا مطالبہ کردیا جبکہ سندھ اسمبلی کی جانب سے نیب قانون کو حذف کرنے کے معاملے پر وفاق اور صوبہ آمنے سامنے آگئے وفاق کی جانب سے واضح کر دیا گیا ہے کہ آئین کے تحت گورنر سندھ دس دنوں میں صوبائی بل کو نظر ثانی کے لیے حکومت کو واپس بھجوا سکتے ہیں صوبائی بل کالعدم قراردلوانے کو انتباہ بھی کردیا گیا پارلیمانی کمیٹی نے مجموعی طور پر بشمول پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین سینیٹ نے سندھ میں نیب قانون منسوخ ہونے پر گہری تشویش کا اظہا رکیا ہے اور سندھ پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر دیا اس امر کا اظہار وزیر قانون و انصاف و کمیٹی کے چیئرمین زاہد حامد نے کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا قومی احتساب کمیشن کی زد میںآنیوالے عوامی و سرکاری عہدیداروں کا تعین ہو سکا ہے نا کمیشن کے دائرہ کار پر پیشرفت ہو سکی ہے اپوزیشن جماعتوں نے نئے احتساب قانون کا اطلاق عسکری اداروں اور عدلیہ پر بھی کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے جس پر کمیشن کے دائرہ اختیار پر کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکا اس سے متعلق سیکشنز کی خواندگی التواءکا شکار ہو گئی مجوزہ قانون کی دیگر تمام 51سیکشنز کا جائزہ مکمل کر لیا گیا ہے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے زاہد حامد نے کہا کہ مجوزہ احتساب قانون کی پہلی خواندگی مکمل ہو گئی ہے قانون کے 53سیکشنز ہیں دو سیکشنز کا جائزہ رہ گیا ہے ان میں پبلک ہولڈرز کی تعین اور بدعنوانی و بدعنوان عمل کی تشریح کرنا رہ گئی ہے باقی تمام سیکشنز پر مکمل اتفاق رائے ہے کمیٹی نے مجموعی طور پر اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ سندھ میں نیب قانون کو حذف کرنے کا قانون آئینی طو رپر غلط ہوا ہے یہ کنکرنٹ لسٹ کا معاملہ ہے اور سندھ حکومت نے آئین کی شق 143کی خلاف ورزی کی ہے فیڈرل قانون کو کوئی صوبہ نہیں چھیڑ سکتا پارلیمینٹ کے اختیار میں مداخلت کی کوشش کی گئی ہے اس حوالے سے سندھ حکومت آئین کی شق 142-Bکو پڑھ لیں کنکرنٹ لسٹ کا ہی ادراک ہو جائے گا ۔
