کراچی، اسلام آباد، لاہور (نمائندگان خبریں) گزشتہ روز کی گراوٹ کے بعد روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہونے لگا اور آج صبح انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کا کاروبار کا آغاز 107 روپے 80 پیسے سے ہوا لیکن صرف دو گھنٹے میں اس کی قیمت 108 روپے 10 پیسے پر پہنچ گئی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سہ پہر 3 بجے امریکی ڈالر اوپن مارکیٹ میں 107 روپے 15 پیسے پر ٹریڈ ہورہا تھا جبکہ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں کے سربراہان کا ہنگامی اجلاس بلالیا تھا۔ روپے کی قدر میں تیز رفتار کمی پر وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں بھی اختلافات سامنے آچکے ہیں کیونکہ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز روپے کی قدر میں کمی کو ملک میں جاری سیاسی بحران کا نتیجہ قرار دیا لیکن اسٹیٹ بینک کے مطابق ایسا بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر میں کمی کے باعث ہوا تھا اور یہ ایک مثبت رجحان ہے۔ شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے پچھلے چند سال سے وفاقی وزارتِ خزانہ سے مسلسل یہ کہتے آرہے ہیں کہ پاکستانی روپے کی خرید و فروخت اس کی اصل قیمت کے مطابق ہونی چاہیے جو اِن اداروں کے حساب سے اِس وقت 116 روپے فی ڈالر یا اس سے بھی کچھ زیادہ ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی سے صرف 3 ہفتے قبل ہی آئی ایم ایف کے ڈائریکٹرز نے پاکستان سے کہا تھا کہ انتظامی اقدامات پر انحصار کرنے کے بجائے شرح مبادلہ (ایکسچینج ریٹ) میں لچک پیدا کی جائے تاکہ اس حوالے سے بیرونی عدم توازن کم کیا جاسکے۔ علاوہ ازیں وسط جون 2017 میں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ ایک ہینڈ آٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈالر اور روپے میں مستحکم شرح مبادلہ کے تناظر میں پاکستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ہیں یعنی حکومتِ پاکستان نے روپے کی قدر برقرار رکھنے کےلیے ڈالر کی حقیقی مالیت کو دا پر لگادیا ہے۔ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں روپے کی قدر مزید کم ہوگی یا اس میں اضافہ ہوگا لیکن ماضی کے تجربات مدنظر رکھے جائیں تو پاکستانی حکومت کے پاس آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دیئے گئے مشوروں پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہوگا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے کہا ہے کہ انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بدھ کو 3.1 فیصد کی کمی ہوئی جس کے بعد ڈالر کی شرح مبادلہ گزشتہ روز کی سطح 104.90 روپے سے بڑھ کر 108.25 روپے ہوگئی۔ گزشتہ روز جاری بیان میں مرکزی بینک نے کہاکہ اگرچہ تمام معاشی اشاریے حوصلہ افزا تصویر پیش کررہے ہیں جیسے گزشتہ 10برسوں میں بلند ترین جی ڈی پی نمو، سرمایہ کاری میں اضافہ، نجی شعبے کو قرضے کی فراہمی میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی تاہم کچھ عرصے سے بیرونی کھاتے کا خسارہ بڑھ رہا ہے چنانچہ مارکیٹ میں ایکس چینج ریٹ میں بھی تبدیلی ہوئی ہے اور اسٹیٹ بینک کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایکس چینج ریٹ میں یہ کمی بیرونی کھاتے میں ابھرتے ہوئے عدم توازن کا تدارک اور ملک میں ترقی کے امکانات کو مستحکم کرے گی۔ اسٹیٹ بینک سمجھتا ہے کہ موجودہ ایکس چینج ریٹ معاشی مبادیات (Fundamentals) سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہے۔ اسٹیٹ بینک زرمبادلہ کی منڈیوں کے حالات کا بغور جائزہ لیتا رہے گا اور مالی منڈیوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تیار ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی دھمکی کام کر گئی ہے جس کے بعد امریکی ڈالر کی قیمت میں2روپے 74 پیسے کی کمی کے ساتھ 105روپے50پیسے ہو گئی ہے۔ اس سے قبل مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 108روپے 24پیسے تک پہنچ گئی تھی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد وزیر خزانہ کی بینک سی ای اوز سے ملاقات سے قبل ڈالر کی قدر میں کمی ہو گئی ،کاروبار کے دوران انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 2روپے 74پیسے کی کمی کے بعد اس کی قیمت 105روپے 50پیسے ریکارڈ کی گئی ۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کو برابری پر لانے کیلئے مسلسل اقدامات کئے جا ر ہے ہیں ، اس ضمن میں وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ کچھ افراد ایسے ہیں جو روپے کی قیمت میں کمی کر کے اسے مصنوعی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ پاکستان نے ڈالر کی قیمت 116روپے مقرر کرنے کی آئی ایم ایف کی تجویز مسترد کر دی ہے اور ڈالر کی قیمت میں دو روپے تیس پیسے کمی کر دی ہے جس کے بعد ڈالر 108روپے تیش پیسے سے کم ہو کر 106روپے پر آگیا ہے ،وزیر خزانہ کی ہدایت پر ڈالر کی قیمت میں مزید کمی کا امکان ہے ۔ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کو تجویز دی تھی کہ پا کستانی روپے کی خرید و فروخت اس کی اصل قیمت کے مطابق کی جائے اور اس حساب سے ڈالر کی قیمت 116روپے ہونی چاہیے۔عالمی ادارے نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ انتظامی اقدامات پر انحصار کرنے کے بجائے شرح مبادلہ(ایکسچینج ریٹ) میں لچک پیدا کی جائے تاکہ اس حوالے سے بیرونی عدم توازن کم کیا جاسکے۔علاوہ ازیں وسط جون 2017 میں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ ایک ہینڈ آٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈالر اور روپے میں مستحکم شرح مبادلہ کے تناظر میں پاکستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ہیں یعنی حکومتِ پاکستان نے روپے کی قدر برقرار رکھنے کےلیے ڈالر کی حقیقی مالیت کو دا و¿ پر لگادیا ہے۔تاہم پاکستان نے یہ تجویز مسترد کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت میں مزید2روپے اور 30پیسے کمی کر دی ہے جس کے بعد ڈالر کی قیمت106روپے ہو گئی ہے جو گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں 109روپے تک پہنچ گیا تھا۔نئی صورتحال پر اسحاق ڈار نے فوری اجلاس طلب کیا تھا ۔س ضمن میں وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ کچھ افراد ایسے ہیں جو روپے کی قیمت میں کمی کر کے اسے مصنوعی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ تاہم وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ڈالر کی قدر میں اضافے کے حوالے سے نوٹس لیتے ہوئے تمام کمرشل بینکوں کے سربراہان کو طلب کرلیا۔وزیر خزانہ اسحق ڈار کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ڈالر کی قیمت میں استحکام لانے کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا، جس میں سرکاری عہدیداران کے علاوہ پاکستان کے کمرشل بینکوں کے سربراہان بھی موجود ہیں۔وزیر خزانہ کے اس اقدام کی وجہ سے انٹر بینک مارکیٹ میں کاروبار کے دوران ڈالر کی قمیت میں نمایاں کمی نظر آئی۔اس وقت انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت فروخت 106 روپے 20 پیسے ہے جبکہ قیمت خرید 106 روپے ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ روز انٹر بینک میں کاروبار کے دوران پاکستان کے پانچ بڑے بینکوں کی جانب سے اچانک کی جانے والی خریداری کے باعث ڈالر کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ماضی میں بھی کمرشل بینکوں کی جانب سے کی جانے والی ٹریڈنگ کی وجہ سے روپے کی قیمت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بیرون ملک قرضوں کی ادائیگی میں ملک کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
