اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امورسرتاج عزیز نے کہاہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں تاحال کسی فوج کی قیادت نہیں کررہے ،اس وقت فوج بنی ہے اور نہ ہی ٹی او آرز کو حتمی شکل دی گئی ہے ،اسلامی فوجی اتحاد کے ٹی او آرز سے متعلق پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے گا ،افغانستان میں مسئلہ کا فوجی حل نہیں ہے، مفاہمتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ، امن عمل کو افغان قیادت میں اور افغانوں کے اپنے ذریعے ہونا چاہئے ،ہماری پالیسی واضح ہے ، ہم ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف ہیں، ہم ان سے ہر جگہ لڑیں گے اور اپنی سرزمین پر ان کو برداشت نہیں کریں گے ،خطے میں پائیدار امن کے لئے پاک امریکہ تعلقات ناگزیر ہیں جبکہ چیئر مین سینٹ میاں رضا ربانی نے مشیر خارجہ کے بیان پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ابھی تک سعودی اتحاد کے ٹی او آرز تک نہیں بنے اور فوج تیار ہوگئی ،آپ نے تو اس فوجی اتحاد کا سربراہ بھی مقرر کر دیا ہے، آپ کے سابق آرمی چیف سعودی اتحاد کی سربراہی کےلئے بھی چلے گئے ،وہاں کیا کررہے ہیں ۔منگل کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف اور اپوزیشن کے کئی ارکان کی طرف سے جمع کرائی گئی تحریک کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہاکہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں تاحال کسی فوج کی قیادت نہیں کر رہے، اس وقت فوج بنی ہے اور نہ ہی ٹی او آرز کو حتمی شکل دی گئی ہے۔سرتاج عزیز نے بتایا کہ ٹی او آرز کو حتمی شکل دینے کےلئے رکن ممالک اور وزیردفاع کے درمیان ملاقات ہونی تھی ، جو تاحال نہیں ہو سکی۔مشیر امور خارجہ نے مزید کہا کہ اسلامی فوجی اتحاد کے ٹی او آرز سے متعلق پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے گا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ امریکی سینیٹ کی آرمز سروسز کمیٹی کے چیئرمین جان مکین کی سربراہی میں 2 سے 3 جولائی تک 5 رکنی امریکی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس دوران وزیراعظم اور مشیر سے بھی ملاقاتیں کیں ،امریکی سینیٹرز کا وفد آرمی چیف سے بھی ملا اور انہیں انسداد دہشت گردی آپریشنز کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ یہ وفد پاکستان سے افغانستان گیا جہاں جان مکین نے افغانستان میں سلامتی کی صورتحال اور حکمت عملی کے فقدان کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک اور محفوظ پناہ گاہوں کے حوالے سے بھی انہوں نے پاکستان میں اپنے رابطوں کے دوران تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی افغانستان پر اپنا تجزیہ پیش کیا اور اس بات سے اتفاق کیا کہ وہاں صورتحال خراب ہو رہی ہے۔ ہم نے رائے دی کہ اس مسئلہ کا فوجی حل نہیں ہے اور مفاہمتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے افغان مفاہمتی عمل کے سلسلے میں سہولت فراہم کرنے کے لئے کیو سی جی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ امن عمل کو افغان قیادت میں اور افغانوں کے اپنے ذریعے ہونا چاہئے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے ہم نے وفد کو بتایا کہ 2013ءسے موجودہ حکومت نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو تباہ کیا۔ امریکی وفد کو وانا کا دورہ بھی کرایا گیا اور اس آپریشن کے نتائج کے بارے میں بتایا گیا۔ وفد کو سرحد پر نگرانی بڑھانے اور باڑ لگانے کے ذریعے محفوظ بنانے کے بارے میں بتایا گیا۔ وفد کو بتایا گیا کہ پاکستان میں تین ملین افغان پناہ گزین رہتے ہیں اور ان کی واپسی ضروری ہے۔ سینیٹ میں اسلامی فوجی اتحاد سے متعلق تحریک پر بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ سے 10 ماہ قبل فوجی کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ذریعے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کیا۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ راحیل شریف کا 10 ماہ قبل توسیع نہ لینے کے اعلان کا مقصد کیا تھا جبکہ کسی نے انہیں مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش بھی نہیں کی تھی تو انہوں نے یہ اعلان کیوں کیا؟فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کیا راحیل شریف سعودی عرب کو پیغام دینا چاہتا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دستیاب ہیں؟پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا فرحت اللہ بابر نے کہاکہ چھ جولائی کو اقوام متحدہ نے جماعت الحرار پر پابند عائد کی ،پاکستان میں جماعت الحرار کو کالعدم قرار دیا گیا انہوںنے کہاکہ جب جیش محمد پر پابندی کی بات آئی تو چین کے ذریعے ویٹو کرایا گیا دفتر خارجہ کی پالیسی میں تضاد کیوں ہے ؟ پیپلز پارٹی کی سحر کامران نے کہاکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی مضحکہ خیز ہے ، حکومت کو پانا ما سے ہی فرصت نہیں ہے جس قسم کے تضادات سامنے آرہے ہیں ملک وہاں اور دنیا میں تنہا ہورہا ہے ، وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمان کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جارہا ہے سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومتی معاملات کیسے چل رہے ہیں ؟سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ امریکہ نے ایک ایک کر کے مسلمان ممالک کو مفادات کےلئے استعمال کیا امریکی معیشت اور ترقی اسلحہ کی فرخت پر کھڑی ہے اسلامی اتحاد فوج کی کمان سنبھالنے پر پارلیمنٹ کو اندھیرے میں رکھا گیا ¾ پہلے ہم امریکہ اور اب سعودی عر ب کےلئے لڑ رہے ہیں ، وزیر دفاع اور مشیر خارجہ نے پالیسی بیان دیا کہ ہم اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے یہ حرمین شریفین کی نہیں سعودیہ کی جنگ ہے ۔وزار ت خارجہ اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ یمن کے معاملے پر استعمال نہیں ہونگے ۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہونے دیں گے انہوںنے کہاکہ ہم نے اپنے ملک کو تباہ کر دیا ہے امریکہ نے ہمیں کیا دیا ہے امریکی جنگ پورے ملک میں پھیلی جان مکین نے بھی کہاکہ حقانی گروپ کی حمایت چھوڑ دیں افغانستان میں بھی جا کر کہا ، سعودی عرب میں ہمارے سپہ سالار کو خصوصی اجازت دی گئی پیسے کےلئے پاکستان کو دباﺅ پر لگا رہے ہیں ایران نے ہماری مدد کی ، آج ایران کے خلاف اکٹھے ہورہے ہیں پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ایک خارجہ پالیسی بنائی جائے ،چین کے سوا کوئی پاکستان کا دوست نہیں چین بھی پاکستان سے فائدہ اٹھا رہاہے جب اتحاد ٹی او آر نہیں بنے تو سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو کیوں بھیجا گیا ۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہاکہ آج تک نہیں بتایا گیا کہ خارجہ پالیسی کون چلا رہا ہے انہوںنے کہاکہ جان مکین نے افغانستان میں کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا قوم فیصلہ کرے گی انہوںنے کہاکہ آپ کے سابق آرمی چیف امریکہ صدر کے حکم پر ریجن میں پالیسیاں بناتا رہا ¾ بادشاہوں سے تعلقات کے بجائے عوام سے تعلقات بڑھاو عوام آپ کا ساتھ دیں گے۔
