تازہ تر ین

لاہور میں دہشتگردی افسوسناک مگر صرف فوجی کاروائی حل نہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار صیا شاہد نے کہا ہے کہ آج کے ہونے والے دھماکے کی جگہ بہت اہم جگہ ہے یہاں ماڈل ٹاﺅن کا ایچ بلاک ہے جہاں نوازشریف اور شہباز شریف کی پرانی رہائش گاہ ہے اب وہاں ان کے دفاتر موجود ہیں ساتھ ہی اتفاق ہسپتال ہے اور ارفع کریم ٹاور بھی موجود ہے۔ نزدیک موجود سبزی منڈی کا جھگڑا گزشتہ 4 سال سے چل رہا ہے۔ احتجاج بھی ہو رہا تھا۔ آج کے دھماکے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ وقفہ وقفہ سے ہمارے ملک میں دہشتگردی کے ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کراچی میں کبھی پشاور اور کوئٹہ میں اور کبھی لاہور میں ہم وزیرستان اور کراچی میں کارروائیاں کر کے کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے لیکن جب یہاں ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں خود آرمی کے 7 ہزار جوان شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ 50 سے 60 ہزار عام شہری شہید ہوئے ہیں۔ امریکہ، بھارت بھلے جو بھی کہیں دن بہ دن ہماری شہادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پشاور آرمی پبلک سکول کا واقعہ انتہائی تکلیف دہ تھا آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آرمی، ایجنسیاں، سیاسی قیادت اور پارلیمنٹیرین سرجوڑ کر بیٹھے اور 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا تا کہ اس کی بنیادی وجوہات کو تلاش کیا جا سکے۔ ٹاسک فورس کے سربراہ ناصر جنجوعہ میرے دوست ہیں۔ میں نے اسلام آباد میں ان سے ساڑھے تین گھنٹے ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ 20 نکاتی فارمولا مجھے سمجھا دیں اور اس میں سے کتنے نکات پر عملدرآمد ہوا یہ بھی بتا دیں۔ انہوں نے بتایا کہ 20 میں سے (5) پر بھی ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جا سکا۔ زندگی کے تلخ تجربے کی بنا پر کہتا ہوں۔ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر عملدرآمد کئے بغیر دہشت گردی کا یہ سلسلہ روکا نہیں جا سکتا، نیشنل ایکشن پلان کے سلسلے میں بنائی جانے والی ایک رپورٹ میں 7 ہزار دینی مدارس کو کلیئر قرار دیا گیا۔ لیکن اس رپورٹ کے تحت200 مدارس ایسے تھے جہاں سے دہشت گردی کرنے والوں کی ٹیلی فون کالز پکڑی گئی۔ وہیں سے دہشت گرد نکلے اور انہوں نے کارروائیاں کیں۔ ایک چھوٹی سی مسجد یا مدرسے میں وہ دہشت گرد آ کر ٹھہرے انہوں نے وہاں نماز پڑھی اور نکل کر آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو ٹارگٹ کیا۔ 200 کے قریب مدارس ایسے ہیں جہاں سے مختلف ایجنسیوں نے مختلف اوقات میں دہشت گردوں کی کالیں پکڑی ہیں۔ وہ وہاں رکے اور نکل کر حملے کئے۔ پچھلے دنوں میں نے سردار یوسف، جو حج، اوقاف اور دینی امور کے وزیر ہیں ان سے پوچھا کہ ان 200 مدارس، جہاں سے دہشت گردوں کی کالز پکڑی گئیں ہیں۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ وہ خاموش رہے۔ بار بار پوچھنے پر انہوں نے جواب نفی میں دیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کمانڈر، ہیبت اللہ کے بیٹے نے رضاکارانہ طور پر خود کو دہشتگرد حملے کے لئے پیش کیا پھر 30 سے 40 افراد اس حملے میں مار ڈالے۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق ایک طالبان لیڈر کا بیان ہے کہ جب ہمیں خود کش بمبار کی ضرورت ہوتی ہے تو لائنیں لگ جاتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 1700 خودکش بمبار تیار ہیں۔ اس کا مطلب ہے 1700 خود کش حملے تیار ہیں۔ اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہزاروں اس کے پیچھے اور تیار ہیں جن کی برین واشنگ کی جا چکی ہے۔ اس صورتحال میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ دہشتگردی پرقابوپا لیا ہے۔ خطرے سے آنکھ بند کر لی جائے تو خطرہ ٹلتا نہیں۔ اس ایک خود کش کے پیچھے پوری مشینری موجود ہوتی ہے۔ جو ان لوگوں کو یہاں پہنچاتے ہیں۔ فنانس کرتے ہیں اور تمام چیزیں انہیں مہیا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے سمیع الحق لڑتے ہیں کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں۔ مولانا سمیع الحق نے لاہور کے ایک ہوٹل میں پریس کانفرنس منعقد کروائی جس کی میزبانی طاہر اشرفی صاحب نے کی۔ اس میں 26 دینی جماعتوں کے نمائندے شریک تھے۔ دیگر اخبارات کے لوگ اور جیو کے امین حفیظ بھی میرے ساتھ موجود تھے ان تمام کا موقف تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ ان کے ساتھ صلح ہونی چاہئے۔ آج کے دھماکے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی ہے۔ ہم نے وزیرستان میں آپریشن کر کے یقینا ان کی کمر توڑ دی ہے۔ لیکن یہ لوگ پھیل چکے ہیں۔ جگہ جگہ ان کے سہولت کار، فنانسر اور پناہ دینے والے موجود ہیں۔ نام نہاد دینی مدارس اور علماءان کی مدد کو موجود ہیں۔ حالانکہ ہمارا دین اور قرآن ہرگز دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا۔ جماعت اسلامی کے سابق سربراہ سید منور حسن نے ایک مرتبہ یہ اعلان کیا کہ طالبان اور ہماری منزل ایک ہے۔ مگر راستے جدا ہیں۔ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے سپر لیڈ بنی تھی۔ ہماری فوج بہت بہادر ہے لیکن جب تک ایسی سوچ اور ایسے نظریات کو بدلا نہیں جاتا ان پر قابوپانا مشکل ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے ایک ایک نکتے پر عمل ہونا ضروری ہے۔ شہباز شریف کے جیالے چند دنوں سے نعرے لگا رہے ہیں ”نوازشریف کو جانے دو شہباز شریف کو آنے دو“ لیکن ابھی تو عدالت کا فیصلہ ہی نہیں آیا۔ پرویز مشرف نے شہبازشریف کو آفر دی تھی اور نثار علی خان کو بھی کہ آپ مسلم لیگ کو متحد کر لیں لیکن دونوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ مجھے مشرف نے خود کہا کہ ہمارے کور کمانڈر شہبازشریف کے حق میں ہیں۔ وہ اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں جبکہ نوازشریف کے اتنے معترف نہیں ہیں۔ لیکن شہباز شریف نے اس وقت بھی یہ آفر قبول نہیں کی تھی۔ اب بھی ایسا مشکل لگتا ہے۔ انتظار کر لیں فیصلہ آنے دیں سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے کہا کہ پنجاب حکومت نے دھماکے کے فوراً بعد بہت تیزی سے اہم اقدامات اٹھائے موقعہ سے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ شہداءکے جسموں کو اٹھایا گیا۔ میڈیکل ایڈ مہیا کی گئی اور دیگر کو ہسپتال پہنچایا گیا۔ کرائم سین کو کور کرنے کے لئے سکیورٹی اہلکار، پولیس، بم ڈسپوزل سکواڈ فرانزک والے اور دیگر اہم اداروں کے لوگ تیزی سے وہاں پہنچے تمام لوگ بہت محنت سے کوشش میں مصروف ہیں کہ وجوہات کا جائزہ لیا جائے اور ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔ پنجاب کے داخلی اور خارجی راستوںپر سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں اس کے علاوہ کیمروں کی مدد سے بھی سکیورٹی کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے آنے جانے کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سیف سٹی پروجیکٹ کی مدد سے جدید آلات اور ماہر افراد کی زیر نگرانی ان تمام علاقوں کو مانیٹر کیا جا رہا ہے کہ کون لوگ شہر میں داخل ہو رہے ہیں یا شہر سے باہر جا رہے ہیں۔ لیکن یہ افسوسناک واقعات کبھی کبھار رونما ہو جاتے ہیں۔ حکومت پنجاب کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہتی۔ چیف رپورٹر خبریں گروپ طلال اشتیاق نے کہا ہے کہ 10 سے 14 کلو وزنی بارود کا دھماکہ تھا۔ سکیورٹی مناسب موجود تھی۔ ریسکیو آپریشن جاری تھا۔ پولیس اور سکیورٹی کے اہلکار کافی تعداد میں اس کے نزدیک موجود تھے۔ اچانک سے کوئی آ کر خود کو وہاں بلاسٹ کر لے تو اسے سکیورٹی کمی تو نہیں کہا جا سکتا۔ دھماکے میں 7 سے 8 تو پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں۔ ابھی تک 26 افراد کی اطلاعات آ چکی ہیں جو اس سانحہ میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ تقریباً 66 کے قریب زخمی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain