اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) خواجہ آصف نے متحدہ عرب امارات میں 6 ماہ قیام کا اقامہ حاصل کیا، خواجہ آصف نے 3 مختلف ادوار میں تین اقامے حاصل کیے، ایک اقامہ 2007 سے 2010، دوسرا اقامہ 2010 سے 2011 تک جب کہ تیسرا اقامہ 2010سے 2011 تک کا تھا۔اس حوالے سے خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ان کا اقامہ 27 سال سے الیکشن کمیشن اور ایف بی آر میں ظاہر کیا ہوا ہے، ان کا ابو ظہبی میں 1983 سے بینک اکاو¿نٹ موجود ہے ، اسی وقت سے بینکنگ چینلز کے ذریعے پیسے وصول کرتے ہیں۔واضح رہےکہ تحریک انصاف کے رہنما عثمان دار نے الزام لگایا تھا کہ خواجہ آصف وفاقی وزیر ہونے کے ساتھ دبئی کی ایک کمپنی کے ملازم بھی ہیں ، انہوں نے کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے متحدہ عرب امارات کا اقامہ لے رکھا ہے۔ اس ملازمت کے بدلے میں وہ مختلف منصوبوں میں اپنی کمپنی کو مالی فائدے پہنچاتے ہیں۔ عثمان ڈار نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان لیگ کا سیالکوٹی بھی اقامے والانکلا خواجہ آصف دبئی کی ایک مکینکل کمپنی میں بحثیت لیگل ایڈوائزر کام کرتے ہیں لیکن اس کی حاصل کردہ آمدنی کو اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا نواز شریف کے بعد ان کے حواری کا بھی اقامہ نکل آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب لوٹ مار اور جیب بھرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے خواجہ آصف نواز شریف کے فرنٹ مین ہے جنہوںنے اپنی پھچلی وزارت میں بھی لوٹ کھسوٹ کی اور اب یہ اقامہ بھی نکل آیا ہے دراصل جس کمپنی سے اقامہ لیا گیا ہے اس کو پراجیکٹ کی مد میں فائدہ پہنچایا گیا ہے تحریک انصاف کے رہنمانے کہا کہ اپنے اثاثے چُھپاکر قوم اور قومی اداروں کو دھوکہ دینا آئین پاکستان کے آرٹیکل 62اور 63کی خلاف ورزی ہے ہم اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں گے اور استدا کریںگے کہ خواجہ آصف قومی اسمبلی کے ممبر ہونے کی حثیت سے بیرونی ملک ملازمت کرنے اثاثے چھپانے اور جھوٹ بولنے پر صادق اور امین نہیں رہے لہذا ان کو آئین کے آرٹیکل 62اور63کے تحت نااہل کردیا جائے انہوںنے کہا کہ عمران خان کے پاس اقامہ اس لئے نہیں لیتے ہیں کہ ان کا جینا مرنا پاکستان میں ہے اقامے تو نواز شریف اور خواجہ آصف جیسے چور لیتے ہیں جو ملک کے بجائے ذاتی مفاد کو عزیز رکھتے ہیں دوسری جانب خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ 27سال سے جس نے پنا اقامہ الیکشن کمیشن اور ایف بی آر میں ڈکلیر کیا ہوا ہے 1983سے بیکنگ چیلنجز سے پیشہ وصول کررہا ہوں اور 1983ہی سے ابوظبی بینک اکا¶نٹ بھی موجود ہے لہذا بے جا الزامات سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ وقت الزامات لگاکر عوام کو مزید اُلجھانے کا نہیں بلکہ اپنی آئینی قانونی وقومی ذمہ داری نبھا کر قومی مسائل کا حل نکالنے کا ہے۔
