لاہور (نادر چوہدری سے )زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ،سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیر اعظم پاکستان شوکت عزیز پر حملوں سمیت دہشتگردی کے درجنوں واقعات میں ملوث مطیع الرحمن کو پنجاب پولیس تلاش کر نے میں ناکام،تحریک طالبان پاکستان مطیع الرحمن گروپ کے نام سے منعظم گروہ کا سربراہ بن گیا، اربوں کے فنڈز حاصل کر نے کے باوجود پنجاب پولیس سراغ لگانے میں بری طرح ناکام، سپیشل برانچ اور سی ٹی ڈی کی تحقیقات بھی صفر ثابت ہوئیں،جدید ٹیکنالوجی ، آلات اوراسلحہ سے لیس پولیس کے درجنوں ونگز اور سکواڈ ز دہشتگردوں تک پہنچنے میں بری طرح ناکام۔باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت اور خوف کی علامت قاری مطیع الرحمن1960ءکی دہائی میںچک نمبر 36/DNBتھانہ ہیڈ راجگاں مدینہ کالونی بہاولپور کے رہائشی علی محمد کے ہاں پیدا ہوا۔ مطیع الرحمن نے علاقائی سکول سے میٹرک کیا جس کے بعد وہ لشکر جھنگوی کےساتھ منسلک ہو گیا اور کافی عرصہ تک لشکر جھنگوی کے سر گرم کارکن کے طور پر کام کیا ۔ مطیع الرحمن نے بہت تھوڑے عرصہ میں قاری مطیع الرحمن گروپ کے نام سے ایک دہشتگرد گروپ تشکیل دیا جو کہ پولیس اور دیگر قانونی نافذ کر نے والے اداروں کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے بہت تھوڑے عرصہ میں انتہائی مضبوط شکل اختیار کر گیا ۔ قاری مطیع الرحمن وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نام تبدیل کر تا رہتا ہے جن میں صمد سیال ، طارق ، استاد طلحہ ، رفیق ، ابوحارث ، حسین ، قاری مشتاق اور انیس سمیت دیگر مختلف نام ہیںجبکہ اس نے لشکر جھنگوی کے بعد ،حرکت جہاد اسلامی ،امجد فاروقی گروپ اورتحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر دہشتگرد تنظیموں سے بھی ا پنا ر ابطہ رکھاہوا ہے اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ( TTPمطیع الرحمن گروپ) کے نام سے منسلک ہے ۔زرائع کا کہنا ہے کہ قاری مطیع الرحمن کاتکیہ کلام ہے (اگر تم بیوقوف نہیں ) جبکہ اسے اردو، سرائیکی اور پنجابی پر عبور حاصل ہے ۔ قاری مطیع الرحمن 25دسمبر 2003کو راولپنڈی میں سابقہ صدر پرویز مشرف پرخودکش حملہ میں ملوث ہے جس کا مقدمہ نمبر 394/2003 تھانہ سول لائنز راولپنڈی میں درج ہے جبکہ قاری مطیع الرحمن گروپ کی جانب سے 30جولائی 2004ءکو اٹک میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے جلسے پرخوکش حملہ کیا گیا جس میں 8افراد ہلاک جبکہ 55زخمی ہوئے۔اس واقعے کا مقدمہ نمبر 215/2004تھانہ فتح جنگ ضلع اٹک میںقاری مطیع الرحمن کے خلاف درج کیا گیا جبکہ کراچی میںبھی ایک ہوٹل پر خوکش حملہ کیا جس کا مقدمہ نمبر 92/2002تھانہ سول لائنز کراچی میںدرج ہے ۔ اس کے علاوہ قاری مطیع الرحمن پر 30جون 1997ءمیں ڈیرہ غازی خان کے علاقہ سول لائنز میںایڈوکیٹ سید شمیم حیدر زیدی پر فائرنگ جبکہ اسی تاریخ کو تھانہ چوٹی زیریں ڈیرہ غازی خان کے علاقہ میں دہشتگردوں کو پناہ دینے اور سرکاری اسلحہ چھیننے کے مقدمات نمبر 120/1997 ءاور 141/1997تھانہ سول لائنز ڈیرہ غازی خان میں درج ہیں جس پروفاقی حکومت کی جانب سے مطیع الرحمن کے سر کی قیمت 1کروڑروپے مقرر کی جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے بھی اس کی گرفتاری پر 10لاکھ روپے کا انعام رکھا گیا ہے تاہم سندھ اور پنجاب کی جانب سے مجموعی طور پر سرپر مقرر کی گئی قیمت ایک کروڑ 10لاکھ روپے ہونے کے باوجود کئی سال گزگئے لیکن پنجاب اور سندھ پولیس قاری مطیع الرحمن کا سراغ لگانے میں بری طرح ناکام ہے جبکہ اس طویل عرصہ میں اس نے اپنا نیٹ ورک اتنا مظبوط کر لیا ہے کہ اس کے متحرک کارکنان ملک کے کسی بھی حصہ سے کسی بھی ارب پتی شہریوں ، تاجروںاور حساس ادارے کے اہلکاروں کو تاوان کیلئے اغواءکر لیتے ہیںاور پھر تاوان وصول کر نے بعد چھوڑ دیتے ہیں یا پولیس کو خبر دینے یا کسی بھی قسم کی چالاکی دکھانے کی صورت میں قتل کر دیتے ہیں ۔تاوان کیلئے قاری مطیع الرحمن گروپ کے سرکردہ کارکن خرم لطیف نے حساس ادارے کے اہلکار اکبر زمان کو 2کروڑ تاوان کیلئے 2سال تک اغواءکئے رکھاجس کی اطلاع حساس اداروں کو موصول ہوئی تو انھوں نے گزشتہ سال2016میں7جون کوکاہنہ کے علاقہ جھیڈو گاﺅں میں سی آئی اے پولیس کے ہمراہ آپریشن کیا جس میں قاری مطیع الرحمن گروپ کاسرگرم کارکن خرم لطیف مارا گیا جبکہ اسکے دیگر 2ساتھی رات کی تاریکی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے تھے ۔آپریشن کے دوران حساس ادارے کے مغوی ملازم اکبر زمان کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیاتھا ۔ہلاک ہونے والے دہشتگرد خرم لطیف کے متعلق اس وقت کے لاہور پولیس کے ترجمان سید نایاب حیدر نقوی جو کہ آج کل ڈی پی آر ٹو آئی جی پنجاب تعینات ہیں کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی تھی کہ ملزم خرم لطیف نے حساس ادارے کے اہلکار اکبر زمان سمیت متعدد ارب بتی تاجروں کو بھی تاوان کیلئے اغواءکرچکا ہے جن میں برانڈرتھ روڈ لاہورکے تاجر شعےب کو 10کروڑ روپے ، لبرٹی مارکےٹ لاہور سے تاجر حمےد کو اےک کروڑ رپے ، راولپنڈی سے گل خان نامی شہری کو 6 کروڑ روپے ، اسلام آباد سے شےخ حفےظ کو 30 کروڑ روپے ، کلثوم پلازہ اسلام آباد سے محمد طاہر کو 16 کروڑ روپے ، راولپنڈی سے شاہ زےب کو 5 کروڑ روپے اور ڈےرہ اسماعےل خان سے محمد آصف کو 6 کروڑ روپے تاوان کے لئے اغوا کرنے کی وارداتوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ ہلاک ہونے والا ملزم خرم لطیف ڈیرہ اسماعیل کا رہائشی اورقاری مطیع الرحمن کا دست راست تھا اورہلاک ہونے سے کچھ عرصہ قبل ہی لشکر جھنگوی سے تحرےک طالبان کے مطےع الرحمن گروپ مےں شامل ہوا تھا اور ان کی فنڈز ریزنگ کےلئے اغوا برائے تاوان کی وارداتےں کرتا تھا۔ واضح رہے کہ مطیع الرحمن تاحال زندہ ہے اورآج تک گرفتار نہیں ہوا جس کی تصدیق آئی جی پنجاب آفس نے بھی کر دی ہے ۔ دوسری جانب ایف آئی اے پنجاب کی جانب سے بھی جاری کردہ انتہائی مطلوب دہشتگردوں کی لسٹ میں قاری مطیع الرحمن کا نام سرفہرست ہے اور وہاں بھی اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے درج ہے ۔