لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ حلقہ این اے 120 سے انتخابی مہم کے سلسلے میں کافی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے فون پر بتایا ہے کہ حلقے میں شکایات کے حوالے سے جب پولیس سے رابطہ کیا جاتا ہے تو پولیس مدد نہیں کرتی اور پرویز ملک صاحب ایم این اے ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب کے اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔ اس لئے پولیس ان کی بات مانتی ہے۔ اگر (ن) لیگ پر الزامات لگ رہے ہیں تو پرویز ملک صاحب میڈیا پر آ کر اپنے موقف کو بیان کرنا چاہئے۔ اور پی ٹی آئی کے الزامات کی تردید کرنی چاہئے۔ سیاسی کارکن کا اپنی پارٹی کے لئے کام کرنا۔ کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ سرکاری وسائل یا نوکریاں تو نہیں بانٹ رہے۔ عرصہ سے دیکھ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کا نمائندہ کبھی یہاں کامیاب نہیں ہوا۔ پھر بھی ان کا موقف ہے کہ وہ ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔یقیناً وہ جیت تو نہیں سکتے لیکن ووٹ ضرور خراب کریں گے۔ اس حلقے میں چند ہزار ووٹ ان کے ساتھ ہیں۔ معلوم نہیں جماعت اسلامی کس طرح فیصلے کرتی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں پہلی دفعہ کشمیر کی امداد اور افرادی قوت کی فراہمی، امریکہ کے کہنے پر روکی گئی۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے تربیتی کیمپ بند ہو گئے۔اس پالیسی کو نوازشریف حکومت نے جاری رکھا۔ جس کی وجہ سے جماعت اسلامی تاثر میں کمی واقع ہو گئی۔ جماعت اسلامی نے آزاد کشمیر کے الیکشن میں اپنے اتحادی پی ٹی آئی کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی جہاں چاہے جس کے ساتھ چاہئے الحاق کر لیتی ہے اور پارٹی کا مذاق اڑواتی ہے۔ این اے 120 کی الیکشن مہم اگر وزیراعلیٰ ہاﺅس سے چلائی جائے گی تو پھر بہت سوالات اٹھیں گے حکومت وقت کو ضرور اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ یہی مشورہ پرویز ملک صاحب کو ہے کہ کوئی عمارت کرایہ پر لے کر وزیراعلیٰ ہاﺅس کی بجائے وہاں سے پارٹی کی الیکشن مہم چلائیں تو بہتر ہے۔ مریم نواز کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی والدہ کی انتخابی مہم لائیں۔ بہتر یہ ہے کہ وہ ایچ ماڈل ٹاﺅن، یعنی سیکرٹریٹ وزیراعلیٰ ہاﺅس سے مہم چلانے کی بجائے کہیں اور سے چلائیں۔ ورنہ تو ان پر بہت سے سوالات اٹھیں گے۔ وزیرداخلہ احسن اقبال جو (ن) لیگ کے رکن ہیں۔ وہ شاید کبھی بھی نوازشریف کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالیں گے۔ ان پر حکومت کا بہت پریشر ہے۔ ملتان میں ہوا پھیلی ہوئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اب الگ صوبے کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ ہم نے وہاں مجلس مشاورت قائم کی ہے جس میں 38 ارکان کو شامل ککیا گیا۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے ایک ایک رکن کے علاوہ علاقے کی کریم شخصیات کو اس میں شامل کیا گیا، یوسف رضا گیلانی، جاوید ہاشمی، ن لیگ کے رکن، تحریک، علماءتمام مکتب فکر کے چیمبر آف کامرس کے صدر، وکلاءانجمن تاجران کے نمائندے شامل تھے۔صادق آباد سے لاہور آنے کیلئے ٹرین میں 12 گھنٹے لگتے ہیں۔ اور وہاں کے عوام کو اپنے ہر کام کے لئے لاہور آنا پڑتا ہے۔ بہتر تھا کہ سیکرٹریٹ وہیں قام کر دیا جاتا۔ جس کی تعمیر پر کروڑوں روپے بھی لگ چکے ہیں۔ لوگ خوش تھے کہ وہاں کا چیف سیکرٹری، آئی جی اور دیگر عملہ علیحدہ کر کے لاہور کی بجائے ملتان میں بیٹھا دیا جائے گا۔ معلوم نہیں کیوں یہ منصوبہ ڈراپ کر دیا گیا ہے۔ (ن) لیگ کی رکن خاتون اسمبلی بھی اس مشاورت میں موجود تھیں انہوں نے بھی صوبے کے حق میں بیان دیا۔ صوبے کے نام پر تو کچھ اختلاف نظر آیا لیکن تمام لوگ اس حق میں تھے کہ علیحدہ صوبہ ہونا چاہئے۔ بہاولپور کے حوالے سے کچھ لوگوں کو تحفظات ہیں کہ اسے سرائیکستان کے نام سے علیحدہ صوبہ بنانے کی بجائے۔ ملتان کے ساتھ شامل کیا جانا چاہئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے بہاولپور کے ایم اینن اے سے وعدہ کیا تھا کہ اسے علیحدہ صوبہ بنایا جائے گا اور پنجاب اسمبلی میں اس کے حق میں قرارداد بھی منطور کروائی تھی بعد ازاں اس پر خاموشی چھا گئی۔ مجلس مشاورت کے ہر رکن کا اتفاق تھا کہ علیحدہ صوبہ بننا چاہئے۔ اب ایک نئی بحث چھڑ چلی ہے کہ ”تخت لاہور“ کی وجہ سے وہاں کے وسائل بھی ان پر خرچ کرنے کی بجائے لاہور پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ آئین میں علیحدہ صوبے کے لئے شق موجود ہے۔ طریقہ کار کے مطابق پہلے صوبائی اسمبلی اس کی علیحدگی پاس کرے گی پھر وہ قومی اسمبلی میں جائے گا۔ پھر وہ فائنل کے لئے سینٹ میں جائے گا۔ قانونی طریقہ تو یہی ہے۔ ملک میں این آر او ہوتا ہے یا نہیں۔ اس کی اصل کنجی آصف زرداری کے پاس ہے۔ کیونکہ ان کے پاس سینٹ کی اکثریت موجود ہے لہٰذا کوئی بھی این آر او پی پی پی کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کسی ایک شخص کے آنے جانے سے پارٹی پراثر نہیں پڑتا۔ ن لیگ کے بعد اگر کسی سیاسی پارٹی نے قوت کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ پی ٹی آئی ہے۔ ان کے جلسے بڑے ”چارجڈ“ جلسے ہوتے ہیں تیسرے نمبر پر پی پی پی بھی دوبارہ کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ جلسوں سے انہوں نے اپنی قوت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر یہ تینوں بڑی پارٹیاں مل کر این آر او پر راضی ہو جاتی ہیں تو یقینا ایک اور این آر او ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر العظیم نے کہا ہے کہ ایم ڈی خیبر بینک کا تعلق صرف کے پی کے تک ہے۔ پنجاب اور خصوصاً حلقہ این اے 120 سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے آ کر ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ نہ سپیکر کے الیکشن اور نہ ضمنی انتخابات کے سلسلے میں۔ سیاسی جماعت کبھی نذرانہ نہیں پیش کرتی۔ اگر اس سلسلے میں پی ٹی آئی ہمسے رابطہ کرتی تو ہو سکتا تھا کہ ہم پی ٹی آئی کے کارکن کی سپورٹ کرتے۔ شفقت محمود صاحب نے ایک مرتبہ فون کیا تھا لیکن دوبارہ فون کر کے انہوں نے منع کر دیا کہ ہم فارغ نہیں ہیں۔ لہٰذا اب تو وقت گمر چکا ہے۔ انہوں نے ”ٹرین مس“ کر دی ہے۔ اب کوئی گنجائش نہیں۔ سابق چیف جسٹس الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ ’نادرا‘ الیکشن کمیشن کے ساتھ بہت مذاق کر رہا ہے۔ اور اس کی مدد نہیں کر رہا۔ حلقہ 120 میں 29000 ایسے ووٹ ہیں جس کی بائیو میٹرک، نادرا نے نہیں کی۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ حلقے میں دس مشینیں لگائی جائیں گی۔ تا کہ بائیومیٹرک تصدیق ہو سکے۔ الیکشن کمیشن، ٹیکنالوجی کی وجہ سے نادرا کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ ووٹر کر کسی اور حلقے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس فارن فنڈنگ اور دیگر معاملات کو دیکھنے کے وسیع اختیارات موجود ہیں۔ ان کے ہاں توہین عدالت آرٹیکل 204 کے تحت ہائیکورٹ کے جج کے برابر اختیارات حاصل ہیں لہٰذا بابر اعوان اور پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج نہیں کرنا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کے ممبر اور صوبائی الیکشن کمیشن میں فرق ہے۔ صوبائی الیکشن کمشنر گریڈ 20 کا افسر ہوتا ہے لیکن ممبر پورے کمیشن کی اتھارٹی رکھتا ہے۔ پی ٹی آئی کی عندلیب عباس کو اپنی شکایات الیکشن کمیشن کے ممبر جس کا سکرٹریٹ صوبائی الیکشن کمشنر کو صرف لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہے ہیں اصل کام مانیٹرنگ ہے جو ممبر الیکشن کمیشن کر رہے ہیں۔ انہوں نے اصل کارروائی کرنی ہے جن کا نام جسٹس (ر) الطاف ابراہیم ہے۔ الیکشن کمیشن کا جھکاﺅ، حکومتی پارٹی کی طرف ہوتا ہے یہ ایک قدرتی امر ہے۔ ہمارے دور میں بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔
