آپ 20 سال سے زائد کسی عام دفتر میں کلرک کی ملازمت بھی کریں تو عموماً ریٹائرمنٹ کے بعد اعزاز میں تقریب سجائی جاتی ہے، لوگ خدمات کو سراہتے ہیں اور پھر ان قیمتی یادوں کا سرمایہ لیے باقی زندگی بسر ہوتی ہے،بات اگر کسی کرکٹر کی آئے تو بظاہر تو وہ بڑی گلیمرس زندگی گذارتا ہے۔
عزت، دولت ، شہرت اسے سب کچھ ملتی ہے، مگر اس دوران جو قربانیاں دینا پڑتی ہیں وہ عام آدمی کو نہیں معلوم، کئی کئی ماہ اپنوں سے دور رہنا،کچھ کر دکھانے کے دباو¿ سے صحت کا متاثر ہونا اور دیگر مسائل انسان کوکبھی کبھی اس موڑ پر لے آتے ہیں جب وہ یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنے کو بھی تیار ہوتا ہے، مگر اگلی صبح جب دوبارہ گرین شرٹ زیب تن کرتا ہے تو سب کچھ بھلا کر دوبارہ ملک کیلیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ بیدار ہو چکا ہوتا ہے،شاہد آفریدی21 سال پاکستان کرکٹ کی خدمت کرتے رہے،اس دوران ٹیم کو کئی میچز جتوائے، گزشتہ برس انھوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا۔
ہر کھلاڑی کی طرح وہ بھی چاہتے تھے کہ عزت سے رخصت کیا جائے مگر شاید یہ بھول گئے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں بڑے بڑے کھلاڑی باعزت رخصتی کو ترسے ہوئے گھر واپس گئے،آفریدی کو میں بہت قریب سے جانتا ہوں،وہ کسی سے دوستی کریں تو اسے زندگی بھر نہیں چھوڑتے، لوگوں پر حد سے زیادہ اعتماد نے انھیں نقصان بھی پہنچایا،ان کا نام استعمال کر کے بعض افراد کہاں سے کہاں پہنچ گئے، مگرانھوں نے کبھی کسی پر احسان نہیں جتایا۔
جاوید ا?فریدی کو لوگ شاہد آفریدی کا بھائی سمجھتے ہیں مگر کیا ا?پ جانتے ہیں کہ وہ بھائی تو کیا کزن بھی نہیں ہیں، ابھی چند روز قبل ہی میں نے بھارتی اخبار میں پڑھا کہ ”آفریدی کے بھائی نے جنوبی افریقی گلوبل لیگ میں ٹیم خرید لی“ حالانکہ شاہد اور جاوید کے تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے، انھوں نے پی ایس ایل ٹیم پشاور زلمی بھی چھوڑ دی مگر پھر بھی کبھی کسی فورم پر آکر یہ نہیں کہا کہ جاویدآفریدی سے میری کوئی رشتے داری نہیں ہے،فواد عالم اور احمد شہزاد سمیت کئی کرکٹرز ایسے تھے جن کے کیریئر شاہد آفریدی نے بنائے۔
الوداعی میچ کے معاملے میں انھیں اپنوں نے ہی دھوکا دیا، انضمام الحق کی وہ دل سے عزت کرتے ہیں، مگر انھوں نے بھی آفریدی کے ساتھ گیم کھیلا، اگر وہ چاہتے تو بطور چیف سلیکٹر اسٹینڈ لے کر انھیں اسکواڈ میں شامل کر کے باعزت واپسی کا موقع دیتے مگر بورڈ آفیشلز کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلاتے رہے، ان دنوں شہریارخان دل کا آپریشن کرانے کے بعد آرام کر رہے تھے، معاملہ نجم سیٹھی تک پہنچا ، انھوں نے صاف الفاظ میں الوداعی میچ کی مخالفت کر دی، وہی سیٹھی اب چیئرمین بنے تو آفریدی سے کہہ رہے ہیں آو¿ ورلڈ الیون والے میچ میں ہم شیلڈ اور چند لاکھ روپے دیں گے، وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ شاہدآفریدی کو کبھی پیسوں کی لالچ نہیں رہی، ان کی فاو¿نڈیشن غریب و نادار لوگوں کی مدد کیلیے ہی کروڑوں روپے خرچ کر دیتی ہے۔
اگر بورڈ حکام کی نیت صاف تھی تو انھیں ورلڈ الیون یا پاکستانی ٹیم میں شامل کرا کے ایک میچ کھلا دیتے، اس سے کوئی زمین نہیں پھٹ جاتی، بلکہ شائقین کو ہی خوب تفریح میسر آتی مگر انا پرست آفیشلز کو یہ برداشت نہ تھا، ایک صحافی نے پریس کانفرنس میں اس حوالے سے سوال پوچھا تو نجم سیٹھی نے صاف انکار کر دیا تھا، آفریدی بھی کوئی بچہ نہیں، وہ صاف سمجھتا ہے کہ یہ لوگ دل سے عزت افزائی نہیں چاہ رہے اسی لیے آنے سے انکار کر دیا، اب بورڈ حکام انھیں منانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر مجھے نہیں لگتا کہ وہ مانیں گے، ویسے بھی افغان لیگ کھیلنے کیلیے جانا ہے، بورڈ نے آفریدی کو الوداعی میچ نہیںدیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، عوام کے دل میں ان کا جو مقام ہے وہ کبھی کم نہیں ہو سکتا، دنیا بھر میں موجود لاکھوں پرستاروں کی محبت ہی ان کیلیے سب سے بڑا انعام ہے۔
اسی طرح یونس خان کا معاملہ ہے، اگر آپ ان کی فٹنس دیکھیں تو نوجوان بھی شرما جائیں کہ اس عمر میں یہ ہم سے بھی آگے ہے، وہ مزید ایک، دو سال ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکتے تھے، مگر چیف سلیکٹر انضمام الحق بار بار جتا رہے تھے کہ ” ہمیں نوجوان کھلاڑی درکار ہیں“ یونس نے سمجھ لیا کہ ایک سیریز خراب گزری تو یہ لوگ ٹیم سے باہر کر دیں گے لہذا بہتر یہی ہے کہ خود ہی سائیڈ پر ہو جاو¿، انھوں نے ایسا ہی کیا، ملک کیلیے لاتعداد کارنامے انجام دینے والا پلیئر ہی خود کو غیر محفوظ سمجھے تو اس سے کرکٹ سسٹم کی خرابی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ یونس نے جب بورڈ سے کہا کہ میں ریٹائر ہو رہا ہوں سینٹرل کنٹریکٹ کی جو رقم بنتی ہے وہ بھیج دیں تو دو، تین دن میں ہی معاہدے کے باقی رہنے والے دنوں کے پیسے کاٹ کر انھیں چیک بھیج دیا گیا، پی سی بی جہاں ملازمین کروڑوں روپے تفریحی دوروں پر لٹا دیتے ہیں وہاں قومی اسٹار کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے، کسی نے ان سے نہیں کہا کہ ابھی ٹیم کو آپ کی ضرورت ہے ریٹائر نہ ہوں،حکام کا ایسا رویہ دل توڑ دیتا ہے، اب اگر یونس بھی تقریب میں نہ آئیں تو انھیں ب±را بھلا کہنے کے بجائے حقائق کا جائزہ لے لیجیے گا،ویسے نجم سیٹھی خود فون کر کے انھیں منانے کی کوشش تو کر رہے ہیں مگرشاید ہی وہ مانیں۔
اب صرف مصباح الحق ہی باقی رہے، انھوں نے قومی کرکٹ میں طویل عرصے رہنے کا راز جان لیا تھا، لہذا بطور کپتان کبھی کسی بات پر مخالفت نہ کی، اسی لیے وہ بورڈ کے فیورٹ رہے، اب بھی وہ تقریب میں جائیں گے اور انھیں جانا بھی چاہیے، انھوں نے بھی ملک کیلیے بہت خدمات انجام دی ہیں، مگر میرا مشورہ ہے کہ وہ نجم سیٹھی سے یہ ضرور پوچھیں کہ جناب آپ تو کافی پہلے ہمارے لیے تقریب سجا رہے تھے اتنی تاخیر کیوں ہوئی، مجھے اور یونس کو بورڈ میں پوزیشن دے رہے تھے اس کا کیا ہوا؟
جو قومیں اپنے ہیروز کی قدر نہیں کرتیں انھیں مشکلات کا سامنا ہی رہتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہے، ہم جواریوں کو تو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں مگر آفریدی، یونس اور مصباح جیسے اصل ہیروز کی قدر نہیں کرتے،نجانے ہمیں کب عقل آئے گی۔