لندن، ینگون(نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے میانمار میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی حمایت کے بعد بھارت سے بھی ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔برطانوی میڈیا کے مطابق نریندر مودی نے میانمار کے دورے کے دوران وزیر خارجہ آنگ سان سوچی سے ملاقات میں کہا تھا کہ ینگون کا دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا حق حاصل ہے اور وہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ینگون کی فوج کی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔مودی نے روہنگیا مسلمانوں کو بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار بھی دیا۔پناہ گزینوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں چودہ ہزار سے زیادہ روہنگیا پناہ گزین موجود ہیں۔نئی شورش کے دوران روہنگیا ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں بنگلہ دیش کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ برطانیہ اور یوروپین یونین نے روہنگیا کی صورت حال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا۔ دریں اثناءمیانمار میں روہنگیا باغیوں نے ایک ماہ کیلئے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ، فوج سے بھی کارروائیاں روکنے کی اپیل کر دی گئی غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار میں روہنگیا مسلمان باغیوں نے ریاست رخائن میں جاری بحران کو کم کرنے کے لیے ایک ماہ کی یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ارکان روہنگیا سیلویشن آرمی(آرسا)نامی تنظیم نے میانمار کی فوج سے بھی کہا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔آرسا کی جانب سے 25 اگست کو ایک پولیس چوکی پر حملے کے جواب میں میانمار کی فوج وسیع پیمانے پر آپریشن کر رہی ہے۔تب سے لے کر اب تک کچھ اندازوں کے مطابق تقریبا 290000 روہنگیا نے رخائن چھوڑ کر پروسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ امدادی تنظیموں کو میانمار سے جان بچا کر بھاگنے والے روہنگیا کی مدد کے لیے فوری طور پر 77 ملین ڈالر درکار ہیں اور خوراک، پانی اور طبی امداد کی اشد ضرورت ہے۔میانمار کی آبادی کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔ میانمار میں ایک اندازے کے مطابق لاکھوں روہنگیا مسلمان ہیں. ان مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر ہیں. حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ یہ میانمار کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں. ریاست رخائن میں 2012 سے فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے. اس تشدد میں بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بےگھر ہوئے ہیں۔بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان آج بھی خستہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔انھیں وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. لاکھوں کی تعداد میں بغیر دستاویزات والے روہنگیا بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں جو دہائیوں پہلے میانمار چھوڑ کر وہاں آئے تھے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی فوج کی طرف سے بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد پر بارودی سرنگیں بچھائے جانے کی تصدیق کی ہے۔تنظیم نے عینی شاہدین اور اپنے ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کم از کم ایک شہری ہلاک اور دو بچوں سمیت تین افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسس ریسپانس ڈائریکٹر تیرانہ حسن کا کہنا ہے کہ اپنے جانیں بچا کر بھاگنے والے نہتے افراد کے خلاف اس انتہائی گھناونی حرکت کو فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے۔بنگلہ دیش کے حکام نے بھی میانمار فوج کی طرف سے سرحد پر بارودی سرنگیں بچانے کے اقدام پر احتجاج کیا ہے۔میانمار کی فوج کے ایک اعلی اہلکار نے برطانوی خبر رساں ادارے روائٹرز کو بتایا کہ یہ بارودی سرنگیں نوے کی دہائی میں بچھائی گئی تھیں اور حال میں فوج نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔دریں اثنا عالمی امدادی ایجنسی ریڈ کراس میانمار میں اپنی کارروائیاں تیز کر رہی ہے کیونکہ اقوام متحدہ پر میانمار کی حکومت کی طرف سے روہنگیا باغیوں کی امداد کرنے کے الزام کے بعد اسے اپنی کارروائیاں کم کرنی پڑ رہی ہیں۔۔جنگ بندی اعکان سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی میانمارحکام سے انسانیت سوز مظالم روکنے کے لیےفوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا تھا میانمار میں ظلم و تشدد سے ہجرت کرکے بنگلہ دیش کی سرحد میں کیمپوں میں موجود روہنگیا مسلمان غذائی ضروریات اور دیگر بنیادی ضروریات کی کمی پرمشتعل ہوگئے۔میڈیارپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش کی سرحد میں قائم مہاجر کیمپوں میں موجود افراد میں پانی اور خوراک کے لیے تصادم ہوا، خواتین اور بچے گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹاتے رہے اور قریب سے گزرنے والے صحافیوں کے کپڑے کوچھوتے رہے اور اپنے پیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے کھانے کی بھیک مانگتے رہے۔ماہرین صحت نے مہاجر کیمپوں میں بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ۔اقوام متحدہ کا کہنا تھاکہ میانمار میں فسادات کے بعد ریاست رخائن کے 3 لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش کی جانب سے ہجرت کی۔