لاہور (خصوصی رپورٹ)محکمہ خزانہ پنجاب نے وفاقی حکومت کو فالو کرتے ہوئے اب وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایک سمری ارسال کی ہے کہ صوبے میں ایم پی پے پیکیج کے تحت کام کرنیوالے افسران کے پے پیکیج میں مزید خاطر خواہ اضافہ کیا جائے جس کے تحت پہلے سے پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والے پبلک سیکٹر کے افسران کی ماہانہ تنخواہ سات لاکھ روپے ہو جائے گی اور ایم پی ٹو پے پیکیج لینے والوں کی ماہانہ تنخواہ چار لاکھ روپے سے زائد ہو جائےگی۔پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ممبران کو جو پہلے ہی تین لاکھ ستتر ہزار روپے تنخواہ وصول کر رہے ہیں ان کو بھی ایم پی ون پے پیکیج دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک کہاوت مشہور ہے کہ محکمہ خزانہ پنجاب ہمیشہ چھوٹے ملازمین کا استحصال کر تاہے اور سیکرٹریوں اور دیگر بڑے افسران کو مراعات اور دیگر الاﺅنسز دینے میں ماہر مانا جاتا ہے جبکہ گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک کے ملازمین کی سمریوں کو دبا لیتا ہے، پنجاب سول سیکرٹریٹ کے ڈپٹی سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹریز کا سیکرٹریٹ الاﺅنس فریز ہے لیکن ایم پی پے پیکیج لینے والے افسران کی موجیں ہی موجیں ہیں۔ نجی شعبہ میں بھاری بھر تنخواہ کی وجہ سے ایک کشش بڑھتی جا رہی ہے۔ڈی ایم جی اور پی سی ایس افسران سرکاری محکموں میں نوکری کی بجائے سرکاری محکموں کے اندر ہی بننے والے پراجیکٹ اور کمپنیوں میں کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جوحکومت کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کو سپیشل ایگزیکٹو الاﺅ نس دیا گیا ہے جو بالترتیب چار لاکھ روپے اور پونے چار لاکھ روپے ہے جبکہ دیگر افسران اور ملازمین کو ایسا کوئی الاﺅنس نہیں دیا گیا۔جس پر پنجاب کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی او سراپا احتجاج ہیں اور میڈیا نمائندوں کو فون کر کے فیلڈ افسران کی تنخواہیں بھی بڑھانے کا کہہ رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کو سیکرٹری سمیت مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتی کےلئے موزوں اور اہل افسران نہیں مل پا رہے ہیں۔ ذہین اور تجربہ کار افسران نجی شعبہ میں چلے گئے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی خلیج کو ختم کرنا یا کم از کم کم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے افسر شاہی میں دو بڑے طبقے پیدا ہو رہے ہیں۔ایک مراعات یافتہ طبقہ جو حکمرانوں کی قربت کے باعث اپنی من پسند سے سرکاری محکموں کے اند رمختلف پراجیکٹ اور کمپنیاں بنا کر دس سے بیس لاکھ تک ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں اور دوسرا وہ طبقہ جو اس وقت سیکرٹری ڈی سی او اور کمشنر اور سول سیکرٹریٹ میں مختلف اسامیوں پر تعینات ہیں اور ماہانہ ستر اسی ہزار روپے تنخواہ لیتے ہیں۔ ڈی سی او لاہور سمیر احمد سید گریڈ19کے ایک افسر والی ماہانہ تنخواہ اسی ہزار روپے لیتے ہیں جبکہ ان کے ماتحت ایم ڈی سالڈ ویسٹ بلال مصطفی سید کی ماہانہ تنخواہ دس لاکھ روپے ہے۔ حالانکہ کام کی نوعیت اور ورک لوڈ ڈی سی او لاہور پر ایم ڈی سالڈ ویسٹ کی نسبت سو گنا زیادہ ہے۔ ۔ ڈی ایم جی افسر کیپٹن (ر)محمد محمود کی تنخواہ نندی پور پراجیکٹ پر لاکھوں روپے ماہانہ رہی ہے لیکن اس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ ممبر پی اینڈ ڈی عابد بودلہ ، فلم سنسر بورڈ کی زیبا علی ، ہیلتھ کیئر کمیشن کے ڈاکٹر محمد اجمل خان ، شعیب بن عزیز پریس سیکرٹری ٹو وزیر اعلی، ممبر پی اینڈ ڈی صداقت حسین، انفارمیشن کمیشن کے مظہر حسین منہاس، مختار احمد اور سابق ایڈیشنل آئی جی احمد رضا طاہر ، پرائیوٹائزیشن بورڈ کے طارق ایوب، ڈائریکٹر پیری ممتاز انور، ممبر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر شبانہ حیدر، میٹرو بس کے سبطین فضل حلیم ، والڈ سٹی اتھارٹی کے کامران لاشاری ، سیکرٹری قانون ڈاکٹر ابولحسن نجمی ، فاروق الطاف کی ماہانہ تنخواہ پانچ لاکھ روپے سے زائد ہے۔ احد خان چیمہ، راشد محمود لنگڑیال کی ماہانہ تنخواہ بیس لاکھ روپے فی کس ہے۔یہ دونوں افسران پنجاب کے سرکاری محکموں میں نوکری کرنےکی بجائے ہوشربا تنخواہ لے رہے ہیں جس سے ان کے بیج میٹ احساس کمتری کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس میں ان کے بیج میٹ اور ان کے ہم گریڈ افسران کا کیا قصور ہے۔لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے سی ای او خواجہ حیدر اور ان کی بیوی ڈاکٹر شبانہ حیدر دونوں حکومت پنجاب سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں۔اس وقت ٹیچرز، یونیورسٹی پروفیسرز ، اور کلرک تنخواہوں میں سو فیصد اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر ایک ڈاکٹر کو رسک الاﺅنس دیا جا سکتا ہے تو ایک ٹیچر کو ٹیچنگ الاﺅنس کیوں نہیں دیا جا رہا ہے۔ حالیہ سی ایس ایس کے رزلٹ نے واضح کر دیا ہے کہ ملک کی ذہین کلاس اب نو کر شاہی کا حصہ بننے کی بجائے دیگر شعبوں میں جانے کو ترجیح دے رہی ہے اور مڈل کلاس کے امیدوار سے تعداد سی ایس ایس کرنےوالوں میں پانچ فی صد سے بھی کم ہو کر رہ گئی ہے۔ جس سے پبلک سیکٹر زوال پذیر ہے۔چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر)زاہد سعید کا کہنا ہے کہ سیکرٹری، کمشنر اور ڈی سی لگانے کےلئے ان کے پاس افسران کی چوائس بڑی ہی محدود ہوتی ہے ۔ حکومت کو اس کا سد باب کرنا ہوگا اور کم از کم گریڈ ایک سے گریڈسولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں فوری طور پر سو فی صدا ضافہ کرنا چاہیے۔