لاہور (خصوصی رپورٹ) شوگر جیسا موذی مرض گزشتہ کئی برس سے ہمارے ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مختلف سرکاری و نجی ہسپتالوں‘ ڈاکٹروں اور متعلقہ اداروں سے حاصل معلومات کے مطابق ملک کے 26 فیصد سے زائد شہری اس سے متاثر ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف ماہرین اور مریضوں سے حاصل کی گئی معلومات نذر قارئین ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 40 لاکھ سے زائد افراد کرکے مرض میں مبتلا ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شوگر سے بچاﺅ کی احتیاطی تدابیر سے متعلق عوام کو آگاہ نہ کیا گیا تو اگلے 15 سال میں ایسے مریضوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔ ماہرین کے مطابق ملک بھر میں اس موذی مرض کے سبب ہر سال 90 ہزار اموات ہوتی ہیں جبکہ مریضوں میں 15 فیصد بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے پھیلاﺅ میں مسلسل اضافے کی بڑی وجوہات سہل پسندی‘ مرغن غذائیں‘ ذہنی تناءاور مرض کی موروثی منتقلی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر لیول کنٹرول رکھنے کیلئے بکرے کا گوشت‘ مچھلی‘ پتوں والی سبزیوں اور دالوں کا استعمال بہت مفید ہے۔ اس کے علاوہ باقاعدہ ٹیسٹ کرانا بھی ضروری ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی غریب آبادی اس سے سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ اس کا سبب ملکی سطح پر طبی سہولتوں کا فقدان اور آگاہی مہم نہ ہے۔ شوگر کی بیماری کے معاشرے پر بھیانک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جناح ہسپتال کے پروفیسر سید مسرور احمد نے اس حوالے سے بتایا کہ شوگر کے مریضوں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں عام طور پر بچپن میں ہی شوگر ہوجاتی ہے اور لبلبہ انسولین پیدا نہیں کرتا۔ چنانچہ جسم میں شوگر کی مقدار نارمل رکھنے کیلئے انسولین کے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ دوسری قسم میں شوگر 30 سال کی عمر کے بعد ہوتی ہے اور ہمارے ہاں سب سے زیادہ تعداد ایسے ہی مریضوں کی ہے۔ یہ زیادہ تر موٹاپے‘ خوراک کی بے احتیاطی‘ ورزش نہ کرنے اور وراثتی طور پر بھی ہوجاتی ہے جبکہ شوگر کی تیسری قسم کی لپیٹ میں حاملہ خواتین آتی ہیں کیونکہ حمل کے دوران خواتین کا وزن بڑھ جاتی ہے اور انہیں انسولین کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جبکہ لبلبلہ اس مقدار سے شوگر پیدا نہیں کرتا۔ اس لئے حاملہ خواتین میں شوگر پیدا ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شوگر کے مریضوں کی پیاس زیادہ لگتی ہے۔ پیشاب زیادہ آتا ہے۔ بھوک زیادہ لگتی ہے اور وزن کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جسم میں تھکاوٹ اور کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ پنڈلیوں میں درد رہتا ہے۔ پھوڑے اور زخم ٹھیک نہ ہورہے ہوں‘ تب بھی فوری شوگر چیک کرانی چاہئے۔ یہ یہ وہ علامتیں ہیں جو انسان میں شوگر کی بیماری کا اشارہ دیتی ہیں۔ شوگر سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی۔ سب سے پہلے سہل پسند طرز زندگی ترک کرکے ورزش کرنی چاہئے۔ متوازن غذا کا استعمال اور مرغن غذاﺅں سے پرہیز کرنا ہوگا۔ 45 منٹ سے ایک گھنٹہ تک روزانہ ورزش یا پیدل چلنا ضروری ہے۔ موجودہ دور میں بہت ساری ادویات میں جو شوگر کو نارمل رکھتی ہیں لیکن ان کا طریقہ استعمال کسی ماہر معالج کے مشورے سے کرنا چاہئے اور ہر ماہ باقاعدگی سے شوگر چیک کرانا چاہئے۔ شوگر کی پیچیدگیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا اس کی خطرناک سٹیج میں شوگر بہت بڑھ جاتی ہے۔ انسان کمزوری محسوس کرتا ہے۔ جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے اور اکثر ایسے مریض غنودگی کی حالت میں ہسپتال لائے جاتے ہیں۔ شوگر کی وجہ سے خون کی نالیوں میں سپلائی متاثر ہے جو جسم کے کسی بھی حصے کو متاثر کر سکتی ہے اور مریضوں میں دل کے دورے اور فالج کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے گردے فیل بھی ہوسکتے ہیں۔ زخم مندمل نہیں ہوتے۔ شوگر سے بینائی بھی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر شوگر کا مرض لاحق ہوجائے تو آپ اسے مکمل ختم نہیں کرسکتے۔ پہلے موٹاپا صرف امراءمیں زیادہ پایا جاتا تھا اب عام لوگوں میں بھی پایا جارہا ہے بلکہ بچوں میں بھی موٹاپا بڑھ رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے ہاں بچوں کے لئے صحت مند سرگرمیوں کا نہ ہونا ہے۔ پلے گراﺅنڈ نہیں کہ بچے کھیل کود سکیں۔ والدین کو چاہئے کہ بچوں کو ویڈیو گیم کی بجائے صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔ بازار کی مرغن غذاﺅں کی بجائے گھر میں اچھا کھانا بتائیں۔ کولڈ ڈرنکس کا استعمال کم سے کم کریں‘ کیونکہ یہ چیزیں نقصان دہ ہیں۔ ہمدرد دواخانہ کے طبیب حکیم محمد ایوب مغل نے بتایا کہ شوگر کی ابتدائی علامات میں پیشاب کثرت سے آنا بھی شامل ہے۔ جسمانی کمزوری محسوس ہوتی ہے اور پنڈلیوں میں درد رہتا ہے۔ زخم ٹھیک نہیں ہوتے۔ حلق میں خشکی محسوس ہوتی ہے اور پیاس زیادہ لگتی ہے۔ وزن کم ہوجاتاہے۔ چکر آتے ہیں‘ آنکھوں کے آگے اندھیرا سا آجاتا ہے۔ گھبراہٹ اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔ شوگر کا مرض ایک سال سے زیادہ پرانا ہوجائے تو لبلبہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور پیشاب میں شوگر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ گولیوں اور انسولین سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ لیکن گر مسلسل بدپرہیزی کی جائے تو یہ کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے۔ شوگر سے جسم کے تمام اعضاءمتاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مریض بلڈ پریشر اور گردوں کے امراض میں مبتلا ہوجاتاہے۔ آنکھوں کی بینائی بھی تاثر ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی دوسرا مرض لاحق ہوجائے تو جلد ٹھیک نہیں ہوتا۔ مردوں کو کمزوری ہوجاتی ہے اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ مریض کو چاہئے کہ اسے شوگر لیول کے کنٹرول پر خاص توجہ دے تاکہ اس سے جسم کے دوسرے اعضاءمتاثر نہ ہوں اور وہ صحت مند زندگی گزار سکے۔ یہ بیماری موروثی بھی ہوتی ہے یعنی والدین سے بچوں کو منتقل ہوجاتی ہے اور اس کے نسل در نسل منتقل ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ آج کل بچے بھی اس مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزی ادویات کے کثرت سے استعمال سے بھی لبلبہ متاثر ہوتا ہے اور شوگر کا مرض پیدا ہونے کا خطرہ ہوجاتا ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ بازار کے کھانے اور مرغن غذاﺅں سے پرہیز کریں۔ زمین کے اندر اگنے والی سبزیاں کم کھائیں۔ پتوں والی سبزیوںکا زیادہ استعمال کریں۔ چاول کم استعمال کریں۔ میٹھا کم کھائیں۔ بکرے کا گوشت‘ مچھلی اور دالوں کا استعمال زیادہ کریں۔ والدین کو چاہئے کہ اگر کوئی بچہ اس مرض میں مبتلا ہوگیا تو اس کی بھرپور مدد کریں اور اسے صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب کریں اور اسے زیادہ دیر تک بھوکا نہ رکھیں۔ حکیم ایوب مغل نے بتایا کہ کلفٹن کے علاقے گذری سے میرے پاس ایک نوجوان شوگر کا مریض آتا تھا‘ اسے ایک دن دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال میں داخل ہوگیا۔ وہاں کئی دن تک اس کی شوگر کنٹرول نہ ہوئی تو وہ میرے پاس یا۔ میں نے اسے پیدل چلنے کا مشورہ دیا۔ اس کا دفتر صدر میں تھا اور اس نے روزانہ گذری سے پیدل دفتر آنا شروع کردیا۔ ایک ماہ بعد اس کی شوگر کنٹرول ہوگئی اور اس کا آپریشن بھی کامیاب رہا۔