لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) نیب عدالت کے سامنے طلال چودھری نے احسن اقبال کو فون کر کے بلایا تھا۔ رینجرز کو آرٹیکل 245 کے تحت پہلے سے اسلام آباد میں موجود تھی۔ تجزیہ کار و کالم نگار مکرم خاں نے چینل ۵ کے پروگرام ”کالم نگار‘’ میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کی گونج دیر تک سنی جائے گی۔ وہ بڑے معنی خیز الفاظ تھے۔ ”خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے“ لوگ اس خاموشی کو بہت معنی خیز کہہ رہے ہیں یقینا یہ طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ نیب عدالت کے سامنے پیش آنے والے واقعہ سے قبل طلال چودھری نے احسن اقبال کو فون کر کے وہاں بلایا تھا۔ احسن اقبال کو وزیر داخلہ کے منصب کیلئے جچتے ہی نہیں۔ وہ سی پیک پر ہی رہتے تو ٹھیک تھا۔ نہ جانے کس نے انہیں اس طرف دھکیل دیا ہے۔ رینجرز آرٹیکل 245 کی رو سے پہلے ہی اسلام آباد میں موجود ہیں۔ پچھلی پیشی پر ہنگامہ آرائی کی کیفیت ہو چکی تھی۔ خبریں نے سینما کے خلاف ہے نہ فلموں کے لیکن غیر معیاری فلمیں دکھانا درست نہیں آئی بی کی لسٹ میں آنے والے 37 افراد کے متعلق خط کی پہلے تصدیق ہونا چاہئے۔ کہ آیا وہ خط درست تھا یا ”فیک“ اس لسٹ میں زیادہ تر جنوبی پنجاب کے لوگ شامل ہیں۔ اکثر لوگ تو اتنے سادہ ہیں کہ آج تک میڈیا پر آئے ہی نہیں تھے۔ لیکن وہ اب چیخ اٹھے ہیں۔ میڈیکل ٹیسٹ کے منسوخ ہونے سے 65 ہزار امیدواروں کا کردار داﺅ پر لگ گیا؟ 20 لاکھ روپے فی پرچہ وصول کر کے انہیں پرچے حل کروائے گئے۔ میرٹ کی دھجیاں بکھیر دیا گیا۔ بچے رل گئے۔ معروف تجزیہ کار، توصیف احمد خاں نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان بہت معنی خیز ہے۔ طوفان آنے سے قبل ایک سکوت طاری ہوتا ہے۔ وہی خاموشی یہاں محسوس ہو رہی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ صفائی ہونے والی ہے۔ طاقتور لوگ 7 گھنٹے خاموشی سے بیٹھے رہیں۔ ایسا ممکن نہیں۔ رینجرز قطعی اپنی مرضی سے وہاں نہیں آئے یقینا انہیں کسی نے بلایا ہو گا۔ ریاض پیرزادہ اور دیگر لوگوں نے اسمبلی سے واک آﺅٹ کیا۔ وہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ چیئرمین سینسر بورڈ فلم دیکھتے ہی نہیں۔ یہ نچلے طبقے والے ہی دیکھ کر اسے پاس کر دیتے ہیں۔ آئی بی کی لسٹ سامنے آتے ہی، آئی بی والوں نے تردید کر دی تھی۔ میڈیکل کالج میں داخلے میں سامنے آنے والے سکینڈل نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ غریب تو اپنے بچوں کو پڑھا نہیں سکتا۔ تجزیہ کار، خالد چودھری نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے ”کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے“ عسکری اور سول قیادت کے درمیان اختلافات بہت زیادہ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک پیج پر ہیں حالانکہ ایسا نہیں۔ میاں نوازشریف پیشی پر گئے تو وہاں ہنگامے کی کیفیت تھی۔ ویسے ہی جیسے سپریم کورٹ پر حملے کے وقت تھا۔ کورکمانڈر کا 7 گھنٹے طویل اجلاس ہوا۔ اس کا بہت بڑا مطلب ہے۔ احسن اقبال کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ یہی بھی وہی کہانی ہے مجھے کیوں نکالا۔ ہمارے اکثر ٹی وی چینل ہمسایہ ممالک کی فلمیں دکھاتے ہیں۔ یہ فلم تو چند لاکھ لوگوں نے دیکھنی تھی جبکہ ٹی وی چینل تو کروڑوں لوگ دیکھتے ہیں۔ آئی بی کی لسٹ ٹیسٹ کے طور پر کھیلی گئی۔ اس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے نوازشریف اگر 9 تاریخ کو آ جاتے ہیں تو ٹھیک ورنہ اس لسٹ کے حوالے سے دیکھئے گا کہ موسمی پرندے کس طرح ڈالی بدلتے ہیں۔ ہم نے یہ ملک بے ایمانیوں کیلئے نہیں بنایا تھا۔ یہاں لوگوں کو ہیلتھ، ایجوکیشن کی سہولتیں دینے کیلئے آزاد ملک حاصل کیا تھا۔ سرمایہ داروں نے ہمارے سسٹم کو تقسیم کر دیا ہے۔ پرائیویٹ سکول، کالجز زہر قاتل ہیں۔ غریب کا بچہ وہاں پڑھ ہی نہیں سکتا۔ غریب لاکھوں روپے خرچ کر کے پیپر خرید نہیں سکتا۔ تجزیہ کار امجد اقبال نے کہا ہے ریاض حسین پیرزادہ نے اسمبلی سے واک آﺅٹ کیا۔ اگر ان کا تعلق کسی بھی تنظیم سے نہیں تو انہیں لسٹ میں کیوں شامل کیا گیا۔ آئی بی کی لسٹ کی سازش میں وہی لوگ ہیں۔ جو فارورڈ بلاک کے تحت پہلے بھی سامنے آ چکے تھے۔ یہ حکومت کے خلاف سازش ہو سکتی ہے۔ لیٹر کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئے۔ اس سے بہت نقصان ہوا ہے۔ اس پر عدالت کا کمیشن بنانا چاہئے اور تفتیش ہونی چاہئے۔ اس کے ذمہ داروں کو منظر عام پر آنا چاہئے۔ صرف ارکان اسمبلی کو ذلیل و خوار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی بینک کی چھٹیوں کی سکینڈل بھی سامنے آیا تھا۔ حکومت کو اس کا شدید نقصان ہوا ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ داخلے سکینڈل کے بعد حکومت نے کیا کیا۔ چیف رپورٹر خبریں طلال اشتیاق نے کہا ہے فلم ”نامعلوم افراد“ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں۔ خبریں کے ایشو اٹھانے پر صوبہ پنجاب کے ترجمان نے کل چینل ۵ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سینسر بورڈ نے اگر درست سینسر نہیں کی تو فلم اب بھی ہٹوائی جا سکتی ہے اس پر کارروائی کرتے ہوئے آج صوبہ پنجاب کے بیشتر سینماﺅں پر اسے روک دیا گیا علاوہ ازیں سینسر بورڈ کے ارکان کی بھی کھنچائی متوقع ہے۔ ایم پی اے سعدیہ سہیل نے کہا ہے کہ میں خبریں کو تحسین پیش کرتی ہوں جس نے اس فلم کے بارے آواز اٹھائی۔ فلم میں جس قسم کے مناظر، کلچر اور زبان دکھائی گئی۔ وہ ہمارے معاشرے کو سوٹ ہی نہیں کرتی۔ میں نے اسمبلی میں اس فلم کے خلاف قرارداد جمع کروا دی ہے۔ ہم فلم، سینماﺅں کے خلاف نہیں۔ لیکن معیافی فلمیں دکھائی جانی چاہئیں۔ اپنے ہمسایہ ملک کی پیروی میں حد سے آگے بڑھنا درست نہیں۔ سنسر بورڈ کا کام ہے کہ ننگ دھڑنگ سین، نازیبا جملوں اور گھٹیا ڈائیلاگ کو نکالے۔ چیئرمین زیبا شاید علیل ہیں لیکن ان کے علاوہ جتنے لوگ تھے وہ قصور وار ہیں۔ اگر وہ یہ کام نہیں کر سکتے تو عہدے چھوڑ کر گھر چلے جائیں۔