لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہمارے دور میں تو عدالتیں بڑی سخت ہوتی تھیں اب عدالتیں بہت نرم ہو گئی ہیں اور توہین عدالت کا تو لگتا ہے کہ باب ہی پھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے کہ جس کا عدالتوں بارے جو جی چاہے کہتا پھرے۔ عدالتیں ہی نرم رویہ اختیار کر چکی ہیں تو پھر مریم نواز کو تو بے قصور ہی سمجھا جائے۔ نوازشریف کے نااہل ہونے کے بعد جس طرح نوازشریف، مریم نواز اور وفاقی وزراءنے عدالتوں کے بارے میں جو زبان استعمال کی اور عدالتوں نے کوئی ایکشن نہ لیا اس کے بعد تو یہی سمجھ آتا ہے کہ جس کا جو جی چاہے کہتا پھرے۔ حکمران خاندان کو ہماری عدالتوں نے مکمل چھٹی دے رکھی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے دور میں عدالتیں۔ معتبر ادارے کی ایک رپورٹ پڑھی جس میں بتایا گیا کہ افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک پر 3 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ بحالی کے بعد جس طرح افتخار چودھری نے کام کیا وہ بھی سامنے ہے، ان کے بیٹے ارسلان کے خلاف کیس کو کس طرح ڈیل کیا گیا، اب انہوں نے ایک سیاسی جماعت بھی بنا لی ہے جس کا کوئی عہدیدار آج تک نظر نہیں آیا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ مریم نواز کے بیان سے تو یہی لگتا ہے کہ انہوں نے چچا کی بات نہیں مانی۔ شاہی خاندان، حکومتی عہدیدار اور آف شور کمپنیوں کے مالکان کو ہر طرح کے بیان دینے کی مکمل آزادی ملی ہوئی ہے۔ اسحاق ڈار جب احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو وہاں پہلے سے پیشی پر آئے بیچارے چھوٹے ملزمان کو کہا گیا کہ دیوار کی جانب منہ کر کے کھڑے ہو جائیں۔ اس طرح کا رویہ اور صورتحال جیلوں کی بھی ہے وہاں بھی بڑے ملزمان کو ہر طرح کی سہولت حاصل ہے اور عام معمولی مجرموں کو باتھ روم تک میسر نہیں ہے۔ صدر مملکت کی باتیں سن کر مزا ضرور آیا ہے یقین نہ آیا کہ واقعی یہ باتیں انہوں نے کی ہیں۔ دیکھنا ہے اب وہ مزید کتنے دن ایوان صدر میں رہتے ہیں، لگتا یہی ہے کہ ممنون حسین نے کراچی واپس جانے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ صدر ممنون حسین نے باتیں اچھی کی ہیں کہ اتنے بھاری قرضے لئے گئے تو خرچ کہاں ہوئے۔ سننے میں آیا ہے کہ صدر مملکت کے بیٹوں کا کراچی میں دودھ کا کاروبار ہے اور انہیں سرکاری سکیورٹی سکواڈ مہیا کیا گیا ہے۔ اگر عدل و انصاف کا علم اٹھا لیا ہے تو آغاز گھر سے کر دیں، ان کے بیٹوں کو سکیورٹی کی ضرورت ہے تو وہ خود پرسنل گارڈ رکھ سکتے ہیں۔ ریاض پیرزادہ ایک شرارتی آدمی ہیں۔ شریف برادران میں مثالی محبت ہے۔ شہباز شریف ریاض پیرزادہ کی باتوں پر کان نہ دھریں گے۔ نوازشریف کے گرد رہنے والے پانچ پیارے نجانے کہاں غائب ہو گئے ہیں اچانک ہی خاموش ہو گئے ہیں اس سے تو بہتر ہوتا کہ ان کو وزیر نہ بنایا جاتا۔ ریاض پیرزادہ نے شہباز شریف کو پیغام دیا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ان کے ساتھ کتنے ارکان اسمبلی ہیں اور آخر وقت تک ساتھ رہیں گے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ریاض پیرزادہ ساری عمر سیاسی جماعتیں بدلنے کے ماہر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تکنیکی بنیاد پر فواد چودھری سے ملاقات کرنے سے انکار کیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے پولیس افسر کو چانٹا رسید کر دیا جبکہ ان کا احتساب عدالت میں موجود ہونے کا ہی کوئی جواز نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے کیسز مکمل کرنے کے لئے 6 ماہ کا وقت دیا تاہم جس رفتار سے مقدمات چل رہے ہیں یہ اگلے 12 سال میں مکمل ہوں گے۔ صدر مملکت کو معافی دینے کا خوبی اختیار حاصل ہوتا ہے۔ قتل کے مجرم کو بھی معاف کر سکتے ہیں، پانامہ کیس میں اگر سزا ہو بھی جائے تو صدر اسے معاف کر سکتے ہیں۔ عمران خان سے ملاقات میں یہ بات بھی ان سے کی تھی۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ ایک بار صحافی وفد کے ہمراہ امریکہ گیا وہاں ایک خاتون جو ہمیں لیکچر دے رہی تھی سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ ”آپ بار بار سوچتے ہیں کہ امریکہ بھارت کی حمایت کیوں کرتا ہے جو اس کا جواب ہے کہ بھارت ہمارا پہلا پیار ہے۔“ یہ خبر پاکستانی اخبارات میں نمایاں شائع کی گئی اور اس پر بڑے تبصرے ہوئے۔ امریکی سفیر اگر بھارت کی حمایت کرتا ہے تو کچھ نیا نہیں کرتا بلکہ ٹلرسن کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ بھارتی نژاد ہے۔ امریکہ میں ہماری لابی کا زبردست اثرورسوخ اور کنٹرول ہے امریکی صدر تک ان کے دباﺅ میں ہوتا ہے۔ بھارت اور اسرائیل میں گہری دوستی ہے، بھارتیوں کو امریکی میڈیا میں بڑے بڑے عہدے ملے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو کہیں بھی امریکہ پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات بھی امریکہ کو ہضم نہیں ہوتے۔