لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی خالد چودھری نے کہا ہے کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا ہی نہیں سب کا ہونا چاہیے کوئی ادارہ احتساب سے مبرا نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے آرمی چیف سمیت اہم حکام سے ملاقاتیں کیں۔ وہ ”ڈومور“ اور ہم ”نومور“ کہتے ہیں۔ تاہم تاریخ گواہ ہے کہ سپر پاور کی بات ہی سپیریئر ہوتی ہے ہمیں صرف ایٹمی طاقت ہونے کی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ روس کا جو حال ہوا وہ سامنے ہے۔ بھاری قرضے کسی نے واپس کرنے ہیں۔ مہذب معاشروں میں خارجہ پالیسی سول حکومت بناتی ہے۔ امریکہ جس طرح افغاستان میں بھارت کو گھسیٹ رہا ہے یہ ہماری خارجہ پالیسی اور افغان پالیسی کیلئے امتحان ہے۔ ملک کی سلامتی عوام سے جڑی ہوتی ہے کوئی ایک ادارہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اکیلا کافی ہے۔ سندھ میں رینجرز نے شرجیل میمن کو گرفتار کیا جبکہ پنجاب میں صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ نواز شریف نے ابھی تک ضمانت نہیں کرائی۔ پنجاب اور سندھ میں کیا قوانین مختلف ہیں اس طرح کے واقعات سے صوبوں کو غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔ معروف تجزیہ کار جنرل (ر) زاہد مبشر نے کہا کہ نواز شریف کا کیس چوری کا ہے اس لیے اس کا تجزیہ بھٹو کیس سے نہیں کیا جا سکتا۔ احتساب بلاامتیاز ہونا چاہیے خطے کی صورتحال کے تحت پاک فوج کا کردار بڑھ گیا ہے وہی ملک کی اصل طاقت ہے۔ لیبیا، عراق، شام، افغانستان، چین کی افواج کمزور انہیں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ پاکستان پر دشمن پاک فوج کی وجہ سے گندی نظر نہیں ڈال سکتا۔ امریکی وزیرخارجہ کے استقبال کیلئے وزیرخارجہ کا نہ جانا خوش آئند ہے اچھا سگنل ہے۔ پاکستان کو کسی سے دب کر بات نہیں کرنی چاہیے۔ تمام بڑے ممالک اپنی فوج سے مشاورت کرتے ہیں پاکستان میں بھی اہم ایشوز یہ فوج سے مشاورت ضروری ہے۔ وزیراعظم خاقان بڑی عقل مندی سے معاملات کو چلا رہے ہیں اور ڈومور کی بات نہیں کر رہے۔ قانون سب کیلئے ایک ہونا چاہیے۔ پنجاب اور سندھ میں ملزمان کے ساتھ الگ الگ سلوک نہیں ہونا چاہیے اس طرح ملک نہیں چل سکتے۔ الیکشن کمیشن کا کام شفاف الیکشن کرانا ہے اسے عدالتوں کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ لیڈرشپ کے اداروں کی عزت کرنی چاہیے۔ سینئر صحافی خالد فاروقی نے کہا کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت دیکھتی ہیں کہ کون شخص ان کیلئے کیا رول ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ ریاست سے ریاست کا تعلق ہے۔ نواز شریف آج عوام کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ انہوں نے عوام کیلئے بھی کام کیا لیکن سرمایہ دار کیلئے زیادہ کام کیا۔ بھٹو اور نواز کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری سول وملٹری لیڈرشپ کا خود کو صرف امریکہ اور مغربی ممالک کے کیمپ تک محدود رکھنا غلط تھا۔ پاکستان کے تمام ممالک کے ساتھ تعلق توازن کے ساتھ رکھنا ہو گا۔ ٹلرسن کے ساتھ افغان صدر بھی بھارت جانے کا جہاں مودی کے ساتھ مشترکہ ملاقات ہو گی ہمیں ان خطرات کا ادراک کرنا ہو گا۔ احتساب میں دو رخی نہیں ہونی چاہیے۔ ادارے اگر کسی ایک سیاسی پارٹی سے امتیازی سلوک کرینگے تو نتیجہ ملک میں انتشار کی شکل میں سامنے آئے گا۔ گلا لئی کسے بتاتی ہے کہ قانون میں کوئی رقم موجود ہے عدالتیں اپنی ماضی خوب جانتی ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں سب ملزمان سے ایک ہی قانون کے تحت نمٹا جانا چاہیے۔ صحافی طاہر ملک نے کہا کہ نواز شریف پاکستان کی ریاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ ذہین آدمی میں خوب جانتے ہیں کہ یہاں اپنے اور لڑنے کیلئے عالمی طاقتوں سے مل کر چلنا ہو گا۔ نواز شریف بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب جانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ گنجائش پیدا کی جائے نواز شریف کو بھٹو کی باقیات سمجھتا ہوں اب اس بار وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے، یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ صرف فوج ہی تمام مسائل حل کر سکتی ہے۔ یہی امریکہ کو یقین دلانا ہے کہ بھارت افغانستان میں کوئی رول ادا نہیں کر سکتا۔ احتساب کے نام پر ملک میں جمہوریت اور سیاستدانوں کیلئے نفرت پھیلائی جا رہی ہے ساری لیڈر شپ کو گندا کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی سیاسی ارتقا عدالتوں کے باعث نہیں ہوا۔