واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک، ایجنسیاں) امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے دعوی کیا ہے کہ اسلام آباد کے دورے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ الگ ملاقات بھی ہوئی۔ جس میں ان کے چند قریبی مشیر بھی شریک تھے اس موقع پر ہم نے بعض مخصوص موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ٹلرسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف سمیت پوری پاکستان قیادت سے مشترکہ ملاقات کی۔ نجی ٹی کے مطابق دوسرا اجلاس جنرل باجوہ کے ساتھ ہوا جس میں ان کے بعض قریبی مشیر بھی موجود تھے۔ ان سے چند مخصوص امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ جنوبی ایشیا کے دورے کے بعد سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستانی قیادت سے کہہ دیا کہ اپنے ملک میں موجود دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرے بصورت دیگر امریکا اور اپنے انداز اور حکمت عملی کے تحت پاکستانی سرزمین پرد ہشتگردوں کے خلاف خود کارروائی کرے گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ انہوں نے پاکستانی لیڈر شپ کو پیغام بتادیا کہ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ ہمارے طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر جائز خدشات ہیں اور امریکا سے نمٹنے کیلئے پاکستانی مدد چاہتا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم کیا چاہتے ہیں ہم آپ سے کہہ رہے ہیں کہ ایسا کریں ان کے سوا کچھ نہیں چاہتے پاکستان خود مختار ملک ہے آپ کو فیصلہ کرنا آپ کو کیا کرنا چاہیے مگر یہ ذہن میں رکھیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں اس کو سمجھ لیا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ انہوں نے پاکستانیوں پر واضح کردیا کہ اگر آپ یہ نہیں کرنا چاہتے تو یہ نہ سمجھیں کہ آپ ایسا کرسکتے ہیں ہم یہ مقصد پاکستان میںد ہشتگردوں کے خلاف کارروائی اپنے انداز اور حکمت عملی کے تحت مختلف انداز میں حاصل کریں گے ٹلرسن کا کہنا تھا کہ امریکہ کے پاس دہشتگردوں سے متعلق انتہائی مضبوط معلومات ہیں جن پر ہمیں امید ہے کہ پاکستان کارروائی کرسکتا ہے انہوں نے دھمکی آمیز گفتگو کے بعد صحافیوں کے سوالات پر کہا کہ پاکستانی قیادت کے ساتھ دوستانہ بات چیت کو لیکچر یا ہدایت نامہ نہیں کہا جاسکتا۔ بہت اچھی اور کھلی گفتگو تھی۔ درحقیقت میں نے 80فیصد پاکستان قیادت کو سنا اور صرف 20فیصد قت اپنی بات کو دیا۔ یہ میرے لئے بہت اہم تھا کیونکہ اس سے پہلے میری ان کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں رہی تھی میرا مقصد زیادہ سے زیادہ انہیں سننا اور ان کا نکتہ سمجھنا تھا۔ ریکس ٹلرسن نے بتایا کہ ہم اپنا نکتہ نظر ان کے سامنے رکھا۔ اپنی توقعات اور امیدیں کسی اشتباہ کے بغیر واضح طور پر انہیں بتائیں ہمارے دورے سے قبل بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ آئندہ بھی بات چیت ہوتی رہے گی کیونکہ ہم کام کررہے ہیں دہشتگرد تنظیموں کو ختم کرنے کیلئے اطلاعات کا خاتمہ کیسے کرسکتے ہیں دہشتگرد چاہے کہیں بھی چھپے ہوں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ لیکچر دینے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا لیکن ہم اپنی خواہشات یا توقعات کے بارے میں قطعی واضح ہیں۔ ہم اپنی حکمت عملی تیار کررہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دورہ اسلام آباد کے دوران انہیں پاکستان کی جانب سے مزاحمت کا پیغام ملا ہے تاہم حکام سے ہونے والی ملاقات کو حقیقت کے برعکس پیش کیا جارہا ہے ، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو یہ باور کرادیا ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ یا پھر اس کے بغیر بھی اپنی جنوبی ایشیا میں اپنی نئی حکمت عملی لاگو کرے گا کیونکہ امریکا کے لیے یہ حکمت عملی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ہم پاک امریکی تعلقات کو باعزت تعلقات کے طور پر دیکھتے ہیں تاہم امریکا کو خطے میں جائز کام اور خدشات ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے پاکستان کی مدد درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستانی حکام واضح پیغام دیا ہے کہ آپ لوگ ایسا کر سکتے ہیں یا پھر ایسا نہیں کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں، دونوں صورتوں میں صرف ہمیں آگاہ کردیں ہم اپنے منصوبوں کو خود ہی ترتیب دیتے ہوئے انہیں پورا کر لیں گے۔انہوں نے بتایا کہ اپنے دورے کے دوران پاکستان کے ساتھ معلومات کا بھرپور تبادلہ ہوا اور جبکہ پاکستان سے مخصوص مطالبات بھی کیے تاہم ہم نے پاکستان سے معلومات حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس کے بارے میں ہم امید کر رہے ہیں کہ وہاں سے ایسی معلومات موصول ہوں گی جو فائدہ مند ہوں گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا دہشت گردوں کی مخصوص معلومات میں دلچسپی رکھتا ہے جو کہ ان کی نقل و حرکت پر محیط ہے اب چاہے دہشت گرد پاک افغان سرحد پر پاکستانی حصے میں ہوں یا افغانی حصے میں ہم معلومات حاصل کرکے انہیں ختم کر سکتے ہیں۔ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ خطے میں استحکام لانے کے لیے پاکستان انتہائی اہم شراکت دار ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان مثبت تعلقات کی طویل تاریخ بھی موجود ہے، تاہم پاکستان کو اپنے ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مزید کام کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کو مستحکم اور پر امن افغانستان سے فائدہ حاصل ہوگا اور دورہ اسلام آباد کے دوران یہی پیغام پاکستانی حکام کو دیا ہے ۔