اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کو بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں آنے والے دودھ اور چکن میں زہریلے مواد کی وجہ
سے نظام تنفس اور ہارمونز کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد میں دودھ زیادہ تر سرگودھا سے آتا ہے، دودھ کے داخلی راستے روات اور ترنول ہیں، ڈسٹرکٹ ہیلتھ کی جانب سے 71ہزار لیٹر دودھ کے نمونوں میں سے 35ہزار لیٹر دودھ قابل استعمال نکلا ہے، باقی دودھ زہریلا، جراثیم شدہ ہونے کی وجہ سے تلف کر دیا گیا ہے، راول ڈیم میں مچھلی کھانے سے گیسٹرو کی بیماریاں پھیلیں، اس میں گیسٹرو کے جراثیم پائے گئے تھے۔ تفصیلات کے مطابق منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کا اجلاس سینیٹر ساجد حسین طوری کی زیر صدارت پارلیمنٹ میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر حمزہ، ڈاکٹر اشوک کمار، سینیٹر نعمان وزیر خٹک، سینیٹر میاں عتیق شیخ، سینیٹر چوہدری تنویر کے علاوہ وزارت صحت، قانون اور ضلعی حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں قائمقام ڈی ایچ او ڈاکٹر طاہر علی نے بتایا کہ اسلام آباد میں سپلائی ہونے والا کھلا دودھ زیادہ تر سرگودھا اور اس کے اطراف سے آتا ہے، دودھ آنے کے راستے ترنول اور روات ہیں، کھلے دودھ میں 50فیصد لکوئیڈ دودھ میں یوریا اور ادویات ملی ہوئی ہوتی ہیں، گوالوں کو ناقص دودھ سپلائی پر 268نوٹسز جاری کئے گئے جبکہ ہیلتھ پروموشن کے سلسلے میں 13017لیکچر دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ناقص دودھ کی وجہ سے بچوں میں بیماریاں بڑھ گئی ہیں، جانوروں کو ٹیکے لگانے والے دودھ میں تو اضافہ ہوتا ہے لیکن بیماریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ 50فیصد دودھ خراب آرہا ہے، اسلام آباد میں ڈیٹرجن پاﺅڈر ملا دودھ سپلائی کیا جا رہا ہے، جس پر ڈاکٹر طاہر علی نے بتایا کہ ناقص دودھ اور چکن کی وجہ سے نظام تنفس اور ہارمونز کی بیماریاں پھیل رہی ہیں، چین نے چکن پر پابندی عائد کر دی ہے پاکستان میں پولٹری فارم والے ٹیکے لگا کر گوشت کو زیادہ بڑھا لیتے ہیں لیکن اس سے زہر اور کینسر پھیل رہا ہے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی و سینیٹر ساجد حسین طوری نے کہا کہ چکن کے مذبح خانے جگہ جگہ ہونے کے بجائے جانوروں کی سلاٹر خانوں کی طرح ایک ہی جگہ پر مرغیوں کو ذبح کیا جائے جہاں پر محکمانہ طور پر اس کی تصدیق کی جائے، دودھ کی بھی مرکزی سرکاری سطح پر چیکنگ کی جائے۔ اجلاس میں چوہدری تنویر کی جانب سے پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی کے بارے میں ترمیمی بل 2017پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ناکوں پر کھڑے پولیس اہلکار ڈیوٹی کے دوران سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں، پارلیمنٹ کے اندر بھی سگریٹ نوشی سر عام کی جا رہی ہے،جب سے قانون بنا ہے اسے ایک ہزار روپے جرمانہ کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں وزارت صحت کیا کر رہی ہے، سیکرٹری ہیلتھ نے بتایا کہ قانون سازی وزارت صحت جبکہ عملدرآمد وزارت کیڈ کراتی ہے، نمائندہ وزارت صحت نے بتایا کہ سگریٹ نوشی کے متعلق قانون 2008میں بنا، 2010میں 1396لوگوں کو جرمانے ہوئے، ہمارا کام صرف قانون بنانا ہے اس پر عملدرآمد کروانا نہیں ہے، ہم قوانین میں ترمیم نہیں کر سکتے، وفاق کا قانون صوبوں پر اس شکل میں لاگو ہو سکتا ہے کہ وہ سگریٹ نوشی سے متعلق اپنے صوبوں میں قانون سازی نہ کریں۔