لاہور (خصوصی رپورٹ) پنجاب میں کام کرنےوالی 63پبلک سیکٹر کمپنیوں میں 156ارب کی مجموعی بے ضابطگیوں‘ خوردبرد اور کرپشن کا کمرشل آڈٹ میں انکشاف ہوا تھا جس میں سے 80ارب کے آڈٹ پیرا پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کو تصفیے کیلئے بھجوائے جا سکے‘ باقی 76ارب کے آڈٹ اعتراضات محکمانہ آڈٹ کمیٹیوں میں التواءکاشکار ہیں۔ پنجاب حکومت نے صوبائی محکموں اور لوکل گورنمنٹ کے اداروں کے کام انجام دینے کیلئے پبلک سیکٹر میں پچھلے چار سال میں 63کمپنیاں اور اتھارٹیاں بنائیں۔ بیوروکریٹس کو بھاری مالی مراعات دے کر ان کمیٹیوں کے سربراہان تعینات کیا گیا۔یہ تمام کمپنیاں وزیراعلیٰ کے احکامات پر بنائی گئی تھیں اور ان کو فنڈز کی فراہمی پنجاب کے خزانہ سے کی گئی تھی تاکہ وہ دیئے گئے اختیارات اور کاموں کو مکمل کر سکیں۔ آڈیٹر جنرل نے ان کا کمرشل آڈٹ کروایا جس میں تمام کمپنیوں میں 156ارب کی مالی بے ضابطگیوں‘ خوردبرد کے آڈٹ پیرا بنائے گئے۔ ان آڈٹ پیروں میں سے 80ارب کے آڈٹ اعتراضات کو محکمانہ آڈٹ کمیٹی اور سپیشل محکمانہ آڈٹ کمیٹی نے سیٹل نہ کیا اور یہ پرنٹ ہوکر پنجاب اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کو بھیجئے گئے تاکہ خوردبرد کئے گئے فنڈز کو ریکور کیا جا سکے جبکہ باقی 76ارب کے آڈٹ پیرے محکموں میں التواءکا شکار ہیں۔ دریں اثنا پنجاب حکومت کی کمپنیوں آڈٹ نہ کئے جانے کے بارے میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں جن میں انکشاف ہوا ہے کہ کمپنی آرڈیننس 1984ءکے تحت رجسٹرڈ پنجاب کی کل 56کمپنیوں میں سے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی‘ صاف پانی کمپنی‘ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی اور قائداعظم سولر پاور کمپنی سمیت پنجاب کی 35کمپنیوں کا آڈٹ سال ہا سال سے ہو رہا ہے کی رپورٹس گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کو بھیج دی گئیں۔ ان 21کمپنیوں کی فہرست بھی حاصل کی گئی ہے جن میں حکمت پنجاب کی بجلی گھر لگانے سے متعلق 9میں سے8بڑی کمپنیاں شامل ہیں لیکن اب آڈیٹر جنرل پاکستان کے حکم پر ان 21کمپنیوں کا آڈٹ کرانے کے نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں۔ جن کمپنیوں کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں ان میں پنجاب بائیو انرجی کمپنی‘ پنجاب کول پاور کمپنی‘ پنجاب دی نیوایبل انرجی کمپنی‘ پنجاب انرجی ہولڈنگ کمپنی‘ قائداعظم ہائیڈل پاور کمپنی‘ قائداعظم تھرمل پاور کمپنی‘ قائداعظم ونڈ پاور کمپنی‘ پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی (سپیشل آڈٹ) کے علاوہ پنجاب ہیلتھ انیشی ایٹو مینجمنٹ کمپنی‘ پنجاب انٹرٹینمنٹ کمپنی‘ ساﺅتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی‘ پنجاب میونسپل ڈویلپمنٹ فنڈ‘ پنجاب لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ بورڈ کمپنی‘ پنجاب منرل ڈویلپمنٹ کمپنی (سپیشل آڈٹ)‘ پنجاب روڈ انفراسٹرکچر کمپنی‘ پنجال سکل ڈویلپمنٹ فنڈ کمپنی اور اربن سیکٹر پلاننگ اینڈ مینجمنٹ یونٹ کمپنی شامل ہے۔ پنجاب کی ان 56کمپنیوں کے زیرانتظام صوبائی اثاثوں کی ملکیت کا پتہ چلا لیاگیا ہے جن کی مالیت 62ارب روپے سے زائد ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ اثاثے قائداعظم سولر کمپنی کے نکلے ہیں جن کی مالیت 16ارب 74روڑ روپے ہے۔ اس کے بعد پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے اثاثے سرکاری ریکارڈ کے مطابق 15ارب 78کروڑ روپے ہیں۔ فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ کمپنی کے اثاثوں کی مالیت 7ارب 81کروڑ‘ پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے 4ارب 88کروڑ‘ پنجاب منرل کمپنی کے 4ارب 84کروڑ‘ پنجاب صاف پانی کمپنی کے 4ارب 24کروڑ‘ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے 3ارب 61کروڑ‘ پنجاب ایگری کلچر اینڈ میٹ کمپنی کے 2ارب 27کروڑ‘ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کے 1ارب 27کروڑ‘ پنجاب سوشل سکیورٹی ہیلتھ مینجمنٹ کمپنی کے 42کروڑ 68لاکھ‘ پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی کے سال 2013-14ءمیں اثاثے 14کروڑ 76لاکھ‘ پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے اثاثوں کی موجودہ مالیت 6کروڑ5لاکھ روپے ہے۔ آڈٹ سے انکار