اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا، پارلیمانی جماعتوں کے قائدین سے حتمی جواب مانگ لیا گیا، پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مردم شماری کے عبوری نتائج پر تحفظات دور کئے بغیر آئینی ترمیم کی حمایت سے انکار کر دیا، اپوزیشن کی بعض جماعتوں نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ پارلیمنٹ کو دونوں بڑی جماعتوں کی غفلت کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ سپیکر سردار ایاز صادق نے توقع ظاہر کی ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جائے گا اور پارلیمنٹ میں اسے حل کر لیا جائے گا۔ پارلیمانی جماعتوں کے رہنما¶ں کا اجلاس منگل کو سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں پارلیمنٹ ہا¶س میں ہوا۔ مردم شماری کے عبوری نتائج پر تحفظات ظاہر کرنے والی جماعتیں اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں حل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران سپیکر اور حکومتی جماعت نے آئینی ترمیم پر سابقہ اتفاق رائے سے پیچھے ہٹنے پر متعلقہ جماعتوں سے گلے شکوے کئے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے یہ جماعتیں کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکیں۔ اجلاس ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا، پارلیمانی جماعتوں میں اختلافات برقرار ہیں تاہم ان تمام جماعتوں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ عام انتخابات بروقت ہونے چاہئیں۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ تمام ارکان اپنی اپنی پارلیمانی جماعتوں کی قیادت سے رابطہ کریں گے۔ ان سے مشاورت کے بعد بدھ کو (آج) اپنے حتمی جواب سے یہ اراکین آگاہ کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں سپیکر نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ پارلیمنٹ اس معاملے کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جائے گا۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ہمیں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں یہ بات ہوئی تھی جس پر اس معاملے کو بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا اور وہاں یہ معاملہ طے پا گیا تھا جبکہ سندھ حکومت نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ سی سی آئی میں قطعاً یہ معاملہ نہیں اٹھا تھا۔ بین الصوبائی رابطہ کمیٹی میں جب اس پر بات ہوئی تو سندھ نے موقف اختیار کیا کہ اسے پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں لے جائیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ میں اپنے ساتھیوں پر اس طرح کی بات کر کے بار بار کیچڑ نہیں اچھالنا چاہتا۔ مسئلے کو سی سی آئی میں لے جائیں وہاں جو فیصلہ ہو جائے ہمیں قبول ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں حل ہو اس کا کوئی راستہ نکلنا چاہئے لیکن یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کسی بھی موقع پر حکومت یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے نہیں لائی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت، کوئی ادارہ انفرادی طور پر بھی سپریم کورٹ جا سکتا ہے کسی پر قدغن تو نہیں لگائی جا سکتی۔ عبوری نتائج پر ہمارے تحفظات موجود ہیں۔ آئین پر بات کریں۔ سید نوید قمر نے واضح کیا کہ نااہل شخص پر سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کی پابندی کے بل کے معاملے پر حکومتی شکست کو دیکھ کر گذشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ حکومت اس معاملے میں ملوث ہے اور سمری بھجوا کر صدارتیفرمان منگوا لیا۔ حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت ہے اور نہ کورم پورا کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد میں ارکان ایوان میں موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ بات چیت ہوئی ہے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے اپنا موقف بیان کیا۔ پاکستان تحریک انصاف واضح کر دینا چاہتی ہے کہ ہم جمہوریت کے تسلسل اور بروقت انتخابات چاہتے ہیں۔ قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ بھی آئینی اور جمہوری ہے۔ جب حکومتیں غیرفعال ہو جائیں تو قبل ازوقت انتخابات میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہمیں مورد الزام ٹھہرا رہی تھی کہ اپوزیشن آئینی ترمیم میں رخنہ نہ ڈالے۔ تاخیر سے معاملات الجھ جائیں گے۔ اب حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس اچانک ملتوی کرا کے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے پاس مطلوبہ ارکان ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 228 ارکان آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے چاہئیں۔ ہمارے تو 30 ارکان اگر ہم اپنے سارے ارکان لے آئیں تو کیا حکومت ترمیم منظور کرا لے گی۔ بات یہ ہے کہ نہ دوتہائی اکثریت نے کے پاس ہے اور نہ کورم پورا کرنے کے لئے حکومت کے پاس مطلوبہ ارکان موجود ہوتے ہیں۔ حکومت کے 10 فیصد ارکان بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے اور ہماری اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے اکثریتی ارکان حکومتی پالیسی سے متفق نہیں ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اداروں کے درمیان کسی بھی قسم کی محاذ آرائی ہو اور یہ بہت بڑا گروپ ہے جو کہ حکومتی طرز عمل سے نالاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ روز ہم پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر پارلیمنٹ کے لئے نااہل شخص پر سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کے بل جو کہ سینیٹ سے منظور ہو چکا ہے لانا چاہتے تھے۔ حکومت شکست کے خوف سے دوچار ہے اور اجلاس ہی ملتوی کروا دیا۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ 2008ءمیں مردم شماری ہونا تھی پیپلزپارٹی کے دور میں مردم شماری ہو سکی نہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت آغاز ہی میں اس حوالے سے کوئی اقدام کر سکی۔ دونوں بڑی جماعتوں کی غفلت کا بوجھ پارلیمنٹ کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ بالخصوص کراچی کی آبادی کم ظاہر کرنے پر تمام سٹیک ہولڈرز میں مشاورت ہوئی ہے انہوں نے عبوری نتائج کو مسترد کر دیا ہے، ہمارے تحفظات موجود ہیں جب نتائج کے حوالے سے تحفظات دور نہیں کئے جا رہے تو حلقہ بندیاں کیسے ہو سکیں گی۔ تاہم انتخابات بروقت ہونے چاہئیں۔ گذشتہ روز اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، اے این پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی(ف)، عوامی مسلم لیگ، مسلم لیگ (زیڈ) اور دیگر جماعتوں کے ارکان شریک تھے۔ شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سارے پارلیمانی رہنماﺅں کا سپیکر سے مطالبہ تھا کہ انہوں نے گزشتہ روز اجلاس کیوں منسوخ کیا اس لئے کیونکہ منگل کو نا اہلی کا بل اسمبلی میں آنا تھا، جس پر سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے صدارتی احکام کی روشنی میں اجلاس منسوخ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن تاخیر سے ہونے کا خدشہ ہے، سپیکر نے الیکشن کمیشن کو کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں جائیں، کیونکہ 10نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل نہیں ہو سکتیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب کی 11سیٹیں متاثر ہو رہی ہیں، جس کا مقصد 33قومی اسمبلی کے حلقے متاثر ہوں گے، اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ گیا تو الیکشن بروقت نہ ہو سکیں گے۔ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ بنیادی طور پر ہمیں مردم شماری پر اعتراض ہے، ہم اس معاملے میں ہائی کورٹ گئے ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ میں بھی جائیں گے کیونکہ سندھ کی تعداد کم کرنے کا مطلب سیٹیں کم کرنا ہے، جتنی آبادی ہو گی، اتنے ہی فنڈز ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانیوں کو مردم شماری میں شمار کرنے سے اس حلقے کی تعداد میں اضافہ تو ہو جائے گا لیکن کیا یہ منصفانہ تقسیم ہو گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ بروقت حلقہ بندیاں نہ ہوئیں تو وقت پر الیکشن نہیں ہو سکیں گے، بروقت الیکشن کرنا مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی ذمہ داری ہے، انہوں نے 9سال کی تاخیر سے کیوں مردم شماری کرائی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق مشترکہ مفادات کونسل سے اجازت نہیں لی، نمبرز میں فرق ہونے کی وجہ سے سیٹوں کی تعداد میں بھی فرق آئے گا، انہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بارے میں کہا کہ وہ ایک ادارہ ہے، سپریم کورٹ کو جانے سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس اس لئے منسوخ کیا کیونکہ نا اہل شخص کو پارٹی سربراہ کے روکنے کا بل اسمبلی میں آتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پارٹی سے اجلاس کے حوالے سے معاملہ رکھیں گے اور آج اس بارے میں اجلاس میں دیکھیں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی ہے، ملاقات پنجاب ہاو¿س میں کی گئی، جس میں ایاز صادق نے نواز شریف کو حلقہ بندیوں پر ہونے والے پارلیمانی رہنماوں کے اجلاس سے متعلق بریف کیا۔ ملاقات میں ایاز صادق نے آئینی ترمیم کے معاملے پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے موقف سے پیدا ہونے والے ڈیڈلاک سے آگاہ کیا ،اس موقع پر نواز شریف نے اکثریتی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ایاز صادق کو ہدایت جاری کیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے معاملات طے کرنے اور مردم شماری کے عبوری نتائج پر رائے عامہ ہموار کی جائے۔اس سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف سے نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجواورڈاکٹرعبدالمالک پر مشتمل وفد نے پنجاب ہاس میں ملاقات کی ، جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس کے علاوہ نئی حلقہ بندیوں اورمجوزہ آئینی ترمیم پربھی مشاورت ہوئی ،ملاقات میں بلوچستان حکومت کی کارکردگی پربھی بات چیت کی گئی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف سے وزرائے مملکت جنید انوار چودھری،ارشد لغاری اورسینیٹر سعود مجید نے بھی ملاقات کی جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر بات چیت کی گئی تھی۔