تازہ تر ین

حضرت داتا گنج بخش بارے وہ باتیں جو آپ نہیں جانتے ہیں،پڑھ کر آپ کا ایمان بھی تازہ ہو جائیگا

لاہور (خصوصی رپورٹ) حضرت علی ہجویریؒ کی لاہور آمد کے متعلق مورخین کی آرا یہ ہیں کہ آپؒ پہلی مرتبہ سلطان مسعود غزنوی کے حملہ ہانسی کے وقت اور دوسری مرتبہ ترکمانوں سے مسعودی غزنوی کی شکست کے بعد 431ھ 1039-40 میں لاہور تشریف لائے۔ اس بدامنی کے دورمیں غزنی کے باشندوں خصوصاً علماء اور بزرگان دین نے ہجرت کی اور حضرت علی ہجویریؒ اپنے دو ساتھیوں ابوسعید ہجویری اور حضرت احمد حماد سرخی آپ کے ساتھیوں کی قبور بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کی لاہور آمد کے متعلق روایت مشہور ہے کہ جس وقت آپ کو حضرت ابوالفضل آپ کے مرشد نے لاہور جانے کا حکم دیا تو آپ کو حیرانی ہوئی اور آپ نے انکساری سے عرض کیا کہ حضور لاہور میں ہمارے پیر بھائی اور مرید کامل حضرت میراں حسین زنجانی پہلے سے موجود ہیں۔ آپ کے پیرومرشد نے فرمایا، اے علی تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے لاہور چلے جاﺅ۔ اپنے دور رفیق خاص احمد حماد سرخیؒ اور ابوسعید ہجویریؒ کے ہمراہ افغانستان کے شہرغزنی سے اشاعت دین کی خاطر دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے ملک ہند کے اجنبی شہر لاہور کی طرف روانہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے یہ تینوں نیک بندے راستہ کی انتہائی خطرناک صعوبتیں عبور کرتے ہوئے پشاور پہنچے پھر دریاﺅں اور پہاوں کو عبور کرتے ہوئے 431ھ 1039-40 عیسوی کو لاہور پہنچے رات کا وقت تھا صبح ہوئی تو دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک جنازہ لیے جا رہے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت میراں حسین زنجانیؒ کا جنازہ ہے یہ سن کر آپ مرشد کے فرمان کی حکمت اور تہہ تک پہنچے ۔ حضرت میراں حسین زنجانیؒ اور حضرت موسیٰ زنجانی کے ہمراہ لاہور تشریف لائے تھے۔ تینوں بھائیوں کے مزارات لاہور میں ہیں۔ ان دنوں غزنی پر سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کی حکومت تھی۔ سلجوقیوں نے جن کا حکمران سلطان الپ ارسلان سلجوقی تھانے حملہ کر دیا اور مسعود غزنوی کو شکست دی ، مسعود غزنوی لاہور آتے ہوئے جہلم کے کنارے مارا گیا۔ اس وقت دریائے راوی کا بہاﺅ تین مقامات موجودہ میکلوڈ روڈ، بھاٹی دروازہ کے قریب تھا ور جس جگہ اقبال پارک (مینار پاکستان) ہے تین چالیس سال پہلے تک بڈھا راوی نالہ کی صورت میں بہتا رہا ہے۔ بہرکیف حضرت علی ہجویریؒ عبادت و ریاضت اور درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ جس جگہ آپ کا مزار مبارک ہے یہاں آپ نے ایک مسجد تعمیر کروائی اور رشدوہدایت ، دین کی تبلیغ سرانجام دینے لگے۔ آپ کی لاہور تشریف آوری کے وقت اس شہر کی آبادی بہت کم تھی۔ عمارتیں زیادہ بلند نہیں تھیں۔ اس وقت لاہور کا نام محمود پور تھا۔ ہندوستان میں بے شمار ریاستیں تھیں شمال کی جانب غزنوی حکومت تھی ۔ تقریباً تمام ریاستوں کے حاکم ہندو راجپوت تھے۔ شہر لاہور میں ہندو راجپوتوں کی اکثریت تھی۔ لاہور کا نائب حاکم بھی ایک ہندو راجپوت راجہ تھا جس کا نام رائے راجو تھا۔ آپ نے لاہور تشریف آوری کے بعد سب سے پہلے مسجد کی تعمیر شروع کروائی اس مسجد کے بارے میں شہزادہ داراشکوہ سفینة الاولیا میں لکھتے ہیں 431 ہجری میں اس مسجد کی تعمیر ہوئی مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات حضرت علی ہجویریؒ نے خود کیے اور خود ایک مزدور کی حیثیت سے خانہ خدا کی تعمیر میں حصہ لیا۔ بعد میں اورنگزیب عالمگیر کے زمانہ میں جب دریائے راوی میں سیلاب آیا تو مسجد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ یہ پہلی مسجد تھی جو ایک مسلمان ولی اللہ نے اپنے تصرف سے اور اپنے ہاتھوں سے تعمیر کروائی۔ اس مسجد کی بنیاد 431ھ خیال کرنی چاہیے کیونکہ آپ نے لاہور تشریف آوری کے چند ہی روز بعد اس مسجد کی ضرورت محسوس کی۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain