تازہ تر ین

اسلام کی پہلی مسجد شہید

لاہور (خصوصی رپورٹ)مشرقی افریقا کے غریب ترین ملک اریٹیریا کی فورسز نے ملک میں دینی مدارس اور مساجد منہدم کرنے اور علمائے کرام کی گرفتاری کی وحشیانہ مہم میں تیزی لاتے ہوئے 31اکتوبر کو دینی مدرسے کے 28 طلبہ کو بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتاردیا ہے۔ اریٹیریا اس رحم دل مسلمان نجاشی بادشاہ کا ملک ہے جس نے کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت کرنے والے صحابہ کرامؓ کا نہ صرف استقبال کیا بلکہ انہیں اپنے دربار میں خصوصی مہمان بنانے کے بعد بحفاظت وہاں رکھا۔ اریٹیریا کی حکومت نے گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں دینی مدارس کے خلاف کریک ڈاﺅن جاری رکھا ہوا ہے۔ اس ضمن میں تازہ واقعہ 31اکتوبر کو اریٹیریا کے دارالحکومت اسمرا میں رونما ہوا۔ دینی مدرسے کے طلبہ فورسز کے ہاتھوں اپنے اساتذہ کی گرفتاری اوردینی مدرسے کی بندش کے خلاف سڑکوں پر نکل کر پرامن احتجاجی مظاہر ے کررہے تھے کہ اریٹیریا کی پولیس اور فوج نے نہتے طلبہ پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں 28 طلبہ جاں بحق جبکہ درجنوں دیگر زخمی ہوگئے۔ فورسز کی فائرنگ سے طلبہ کے جاں بحق ہونے کے بعد اسمرا میں عوام کی بڑی تعداد حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ عوامی مظاہرین کو اریٹیرین حکومت کی اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل ہے۔ رپورٹ کے مطابق احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ 31 اکتوبر اسمرا کے مسلم اکثریتی علاقے اکریا سے شروع ہوا جہاں ملک کا سب سے بڑا دینی مدرسہ مدرسہ الضیاءالاسلامیہ واقع ہے جس میں 3ہزار طلبہ دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ دینی مدرسہ کے طلبہ کی حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ حکومت کی جانب سے مدرسے میں دینی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ تھا۔ اریٹیرین حکام نے رواں برس اگست میں دینی مدرسے کو ملک کے سرکاری تعلیمی اداروں میں ضم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ مدرسے میں مزید دینی تعلیم کا سلسلہ بند کردیا جائے۔ دینی مدرسے میں پڑھنے والی طالبات حجاب نہیں پہنیں گی اور مدرسے میں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے مخصوص الگ نظام تعلیم کو ختم کرکے مخلوط نظام بنایا جائے۔ مدرسے کے سرپرست اور معمر عالم دین شیخ موسیٰ محمد نور نے حکومت سے مذاکرات کرکے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی تاہم حکومت کے انکار پر شیخ موسیٰ نے اپنے موقف پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے عالم دین کو حراست میں لے لیا جو گزشتہ اڑھائی ماہ سے جیل میں ہیں۔ شیخ موسیٰ کی عمر 90 سال سے متجاوز ہے۔ انہیں افریقی ممالک میں ہزاروں علماءکا استاد مانا جاتا ہے۔ انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف بھی مو¿ثر مزاحمت کی تھی۔ استعماری جیلوں میں عرصے تک جیل کاٹنے اور استعمار کی مخالفت میں دنیوی پیشکشوں کو ٹھکرانے کے سبب انہیں انتہائی قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیخ موسیٰ کی گرفتاری کے بعد رواں ہفتے فورسز نے مدرسے کی عمارت پر قبضے کے لئے علاقے کا گھیراﺅ کیا جس پر طلباءمشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔ رپورٹ کے مطابق فورسز نے دارالحکومت اسمراءکی مساجد کو سیل کیا جس کے سبب 31 اکتوبر سے اسمرا میں نماز با جماعت نہیں ہوسکی ہے۔ مساجد کی بندش اور طلباءکی ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہروں کا دائرہ دارالحکومت اسمرا سے دیگر شہروں تک بھی پھیل گیا ہے جن شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے ہورہے ہیں ان میں اغرادات‘ کرن‘ عدی فیح اور مصوع کے نام سرفہرست ہیں۔ جہاں ہجرت سے قبل 614ءمیں ہمیشہ کی طرح ہجرت کرنے والے صحابہ کرام ؓ کا پہلا قافلہ پہنچا تھا۔ ان کی کشتی مصوع کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوئی تھی۔ مصوع میں ہی دنیا کی پہلی مسجد قائم کی گئی تھی جو مسجد راس مدرس کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس نسبت سے مصوع کو افریقہ کے لئے اسلام کا دروازہ کہا جات ہے۔ ارینیری حکومت نے دینی مدارس اور مساجد کے خلاف کریک ڈاﺅن کی مہم کے دوران مصوع شہر پر بھی وحشیانہ بمبماری کرکے اسلام کی پہلی مسجد کا بیشتر حصہ شہید کیا ہے اور اب اس اولین مسجد کا صرف ممبر اور محراب باقی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اریٹیریا میں شروع ہونے والی عوامی تحریک کو دینی مدرسے کی نسبت سے ”ضیاءانقلاب“ کا نام دیا گیا ہے۔ 1969ءمیں تعمیر ہونے والا مدرسہ الفسیاءالاسلامیہ دینی مدارس کے خلاف کریک ڈاﺅن کے بعد باقی رہنا والا اکلوتا دینی مدرسہ ہے۔ اس سے قبل سینکڑوں دینی مدارس حکومت نے بند کردیئے ہیں نے ملک کی آزادی میں بھی کلیدی کردار کیا ہے۔ اریٹیریا نے ایک طویل مزاحمتی جدوجہد کے بعد 1993ءمیں اپنے ہمسایہ ایتھوپیا اور برطانیہ سے آزادی حاصل کی ہے تاہم ملک میں اس وقت پارلیمنٹ اور دیگر جمہوری اداروں کا وجود نہیں ہے۔ ملک میں آمریت قائم ہے جو سیکولرازم کی کھلی حمایت او پرچار کررہی ہے۔ ملک کا صدر اسایاسافورتی 1993ءسے اب تک اقتدار پر قابض ہے۔ ایٹیریا میں عیسائیوںکی مذہبی سرگرمیوں پر بھی پابندیاں عائد ہیں اور ملک کے سینکڑوں عیسائی پادری مذہبی سرگرمیوں کی پاداش میں جیلوں میں ہیں۔ اریٹیریا میں 48 فیصد مسلمان ہیں جن کی اکثریت عربی زبان بول رہے ہیں۔ ملک میں سینکڑوں دینی مدارس کو حکومت نے سیکولرازم میں تبدیل کردیئے ہیں۔ مدرسہ الفسیاءالاسلامیہ واحد اسلامی ادارہ ہے جس کی انتظامیہ نے آمریت کے کفریہ نظام کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اسی طرح سے حالیہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ ایٹیریا میں 1993ءکے بعد پہلا ہے۔ ایٹیریا انسانی حقوق کے حوالے سے افریقہ کے بدترین ممالک میں سے ای ہے۔ 2015ءمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انسانی حقوق سے متعلق اپنی رپورٹ میں اریٹیریا کو بدترین ملک قرار دیا تھا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain