تازہ تر ین

فاروق ستار, مصطفی کمال کا اتحاد 24گھنٹے بھی نہ نکال سکا : ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا اتحاد کچھ جلدی میں ہو گیا تھا۔ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے چند دن قبل اپنے جلسے میں مصطفی کمال کی پارٹی کو ٹھیک ٹھاک سنائی تھیں۔ اسی طرح ”وہرا“ جب پی ایس پی کو پیارے ہوئے تو انہوں نے ایم کیو ایم کی ادھیڑ کر رکھ دی تھی۔ فاروق ستار نے بیان دیا کہ ایک نشان اور ایک ہی نام سے الیکشن لڑیں گے۔ عابدی نے استعفیٰ دے دیا۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے سنیٹرز کا بیان آ گیا کہ ہم اپنا نشان اور نام چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ جیتی ہوئی سیٹوں پر بھی اتحاد نہیں ہو گا۔ کل سے بحث جاریتھی پرویز مشرف یا عشرت العباد اس اتحاد کو ہیڈ کریں گے۔ مصطفی کمال صاحب نے فاروق ستار سے ملاقات کی تو شاید اس وقت تک فاروق ستار نے اپنے ساتھیوں کو اعتمادمیں نہیں لیا تھا۔ اس کا جواب وہ خود ہی دے سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے پروگرام میں دونوں کو مشورہ دیا تھا کہ آپس میں اتحاد کئے بغیر گزارا نہیں ہے۔ مصطفی کمال نے ہمیشہ ڈاکٹر فاروق ستار کے لئے سافٹ کارنر رکھا جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار سخت الفاظ بھی بول جاتے تھے۔ ان کے ”اتحاد“ سے ایم کیو ایم کے اکثر ساتھی خوش نہیں تھے۔ عامر خان کا بیان تو کھل کر سامنے آ گیا ۔ انہوں نے شدید الفاظ میں اس کی مخالفت کی۔ اسی طرح اکثر منتخب نمائندے خصوصاً اس سے خوش دکھائی نہیںدیتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا نشان نہیں چھوڑیں گے۔ ”ادغام“ کی تو مخالفت ہوگئی۔ لگتا ہے۔ ادغام یا مرجر کی بات اب رک گئی۔ ایم کیو ایم پاکستان، فاروق ستار کے نام سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ ایم کیو ایم آدھے سے زیادہ لوگ اپنا نام اور نشان تبدیل کرنے پر راضی نہیں تھے۔ فاروق ستار اپنے ساتھیوں کی بات مان کر ”مرجر“ کا فیصلہ موخر کرنا پڑا۔ آنے والے وقت میں پتا چلے گا کہ جن لوگوں نے یہ ادغام کروایا تھا وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ایک روزہ اتحاد جو 24 گھنٹے بھی نہ چل سکا اسے ختم کروانے میں ایم کیو ایم لندن نے نمایاں کردار ادا کیا کیونکہ بانی متحدہ مصطفی کمال کو برداشت نہیں کر سکتا۔ فاروق ستار شاید اس وقت ”ڈبل مائنڈ“ ہیں۔ خورشید شاہ صاحب کے بیان سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایم کیو ایم کی اصل طاقت ان کے پاس ہے جنہوں نے یہ پارٹی بنائی تھی۔ بنوائی تھی۔ جب وہ ناراض ہوتے تھے تو وہ جناح پور کے نقشے پیش کر دیتے تھے۔ صلح کے وقت شاباش دیتے تھے۔ کچھ خفیہ طاقتیں موجود ہیں جو پسند نہیں کرتیں کہ پی پی پی مکمل طور پر سندھ میں راج کرنے لگے۔ یہ ایک ایک پریشر گروپ کھڑا کیا گیا تھا کراچی میں جو پی پی پی کا مقابلہ کرے۔ تا کہ ڈھاکہ والی سٹوری دہرانے کا خیال ان کے دل سے نکل جائے۔ 1970ءمیں مشرقی پاکستان میں صرف دو سیٹیں لی تھیں، جس پر عوامی لیگ کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ باقی تمام سیٹیں شیخ مجیب الرحمن جیت گئے تھے۔ خفیہ طاقتیں اسی بات سے پریشان ہیں کہ کسی کو بھی مکمل طاقت کسی صوبے یا علاقے میں قائم نہیں کرنی چاہئے۔ نوازشریف بادشاہ ہیں۔ ان کے بارے بات نہیں کر سکتے ان کا کیس عدالت میں ہے۔ ضمنی الیکشن رولنگ پارٹی جیتتی ہے۔ جنرل الیکشن میں ماحول بالکل مختلف ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف جنرل جیلانی کے خاص الخاص شاگرد ہوتے تھے۔ ضیاءالحق نے مجھے بلا کر کہا نوازشریف کے خلاف جو خبر چھپی ہے اس کے لئے ایک ایکسائز انسپکٹر ہی کافی ہے پرویز الٰہی کے اس وقت بغاوت کر دی تھی انہوں نے اس کے بارے یہ کہا تمام اخباروں کو بلا کر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاءالحق نے کہا کہ تمام اخبار یہ خبر چھاپیں کہ ”نوازشریف کا کلا مضبوط ہے“ اسی اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف کو وزیرخزانہ بنایا۔ آج وہ اے طعنہ دے رہے ہیں اسی اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ یہ وزیراعلیٰ بنے پھر وزیراعظم بنے۔ لہٰذا وہ اس کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔ علامہ اقبال نے پی ایچ ڈی ”فلاسفی“ میںکی۔ انہوں نے قومی شاعری میں علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ انہیں مصور پاکستان کہا جاتا ہے۔ خطبہ الٰہ آباد میں پہلی مرتبہ یہ نظریہ پیش کیا کہ مسلمان اکثریتی علاقوں میں ان کی حکومت ہونی چاہئے۔ قائداعظم نے علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر دی۔ لہٰذا دونوں اشخاص کا ہمارے ملک پر احسان عظیم ہے۔ جمہوریت ہمیں جہیز میں ملی ہے۔ ہم برطانیہ سے آزاد ہوئے تھے۔ یہ وہاں کا نظام تھا۔ ہم نے اسے اٹھایا اور سر پر ڈال لیا۔ علامہ اقبال نے جمہوریت کے لئے کہا تھا۔”جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جہاں پر بندوں کو گنا کرتے ہیں تولہ نہیں جاتا۔“پی ایس پی کے مصطفی کمال نے کہا ہے کہ فاروق ستار کی پارٹی کے بارے وہ خود ہی مناسب جواب دے سکتے ہیں ہماری ان کے ساتھ ملاقاتیں چھ، سات ماہ سے جاری تھیں۔ ملاقات میں ان کے ساتھی بھی موجود ہوتے تھے۔ میں ان سے یہ تو نہیں پوچھ سکتا تھا کہ اپنے ساتھیوں سے اجازت لے کر آئے تھے یا نہیں سربراہ کو پارٹی ورکروں سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم نے اپنی پارٹی کے ساتھیوں کو اعتماد میں لے کر کل کی کانفرنس کی تھی۔ ان کی پارٹی کے بارے میں وہی جواب دے سکتے ہیں۔ یہ ان کا انٹرنل معاملہ ہے۔یہ ایک ”مرجر“ تھا۔ اسے اتحاد یا الائنس نہیں کہنا چاہئے۔ یہ دو پارٹیوں کا ”مرجر“ ہے۔ اس پر اتفاق ہوا تھا۔ پی پیس پی اخلاقی یا لسانی سیاست نہیں کرتی۔ کراچی ہماری بنیاد ہے۔ ہمارے ساتھ سندھی، پنجابی، پٹھان،، بلوچ سب موجود ہیں۔ ہم کسی ایک کی بات نہیں کرتے۔ ہم زبان، نسل پر یقین نہیں رکھتے۔ اس سے قبل ہماری لمبی ملاقاتیں ہوئی ہیں میں نے الطاف حسین اور عشرت العباد کی کیٹیگری میں کبھی فاروق ستار کو شامل نہیں کیا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain