اسلام آباد (ویب ڈیسک ) پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نا اہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد اب سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کی نا اہلی کیس کا فیصلہ بھی محفوظ کر لیا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کے تحریری جواب اور ان کی ٹرسٹ ڈیڈ میں تضاد ہے۔جسٹس عطا بندیال نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں کہاں لکھا ہے کہ جائیداد کو کرائے پر نہیں دیا جا سکتا؟ عدالت نے ٹرسٹ کے لیے شائنی ویو کو دئے گئے چیک کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ یہ چیک کس حق میں ڈرا ہوئے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جہانگیر ترین ٹرسٹ کی انکم کسی کو دینے کی ہدایت دیں، کیا جہانگیر ترین کا ٹرسٹ پر کنٹرول نہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ جہانگیر ترین کمپنی کے بینیفیشل نہیں ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ پیسہ قانونی طریقے سے بھیجا گیا ، جہانگیر ترین نے تمام منی ٹریل بتائی ، ہو سکتا ہے کہ اثاثہ اآپ کا ہو لیکن ظاہر نہ کیا گہا ہو۔ کاغذات نامزدگی میں کسی کو بینیفشری نہیں بتایا گیا، جسٹس عمر عطا نے کہا کہ جہانگیر ترین نے ٹیکس اتھارٹی کو بچوں کے بینیفشری ہونے کا بتایا ، ان کو اپنے گوشواروں میں ٹرسٹ کو ظاہر کرنا چاہئیے تھا ، چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے رقم ٹرسٹ کو نہیں بھیجی ، بلکہ براہ راست آف شور کمپنی کو بھیجی۔جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا ٹرسٹ خود ایک قانونی ادارہ ہے ، جسٹس عمر عطا نے کہا کہ ٹرسٹ کے کاغذات میں کسی کو بینیفیشری نہیں بنایا گیا۔ ٹرسٹ ڈیڈ میں صاف ظاہر ہے کہ دو لائف ٹائم بینیفیشری ہیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ اکاو¿نٹنگ مقاصد کے لیے بچوں کو بینیفیشل آنر ظاہر کیا۔جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ میں ڈرافٹنگ میں غلطیوں پر عدالت سے معافی مانگتا ہوں۔میں نے رضا کارانہ طور پر آف شور کمپنی ظاہر کی۔ ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ میں عدالت کی آبزرویشن سے سیکھنے کی کوشش کروں گا۔ جس کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ٹرسٹ بچوں کا اثاثہ نہیں ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین کا تحریری جواب دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ ان کے تحریری جواب اور ٹرسٹ ڈیڈ میں تضاد ہے۔ عدالت نے جہانگیر ترین اہلیت کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔